فیصلوں میں ہچکچاہٹ

17 دسمبر 2013
وزارتِ خارجہ میں انتشار حکومت کا جنم دیا رویہ ہے، وزیرِ اعظم اپنے فیصلوں پر غور کریں۔,۔ دفتر خارجہ فائل فوٹو۔۔۔۔
وزارتِ خارجہ میں انتشار حکومت کا جنم دیا رویہ ہے، وزیرِ اعظم اپنے فیصلوں پر غور کریں۔,۔ دفتر خارجہ فائل فوٹو۔۔۔۔

اکتوبر میں پہلی بار جب دفترِ خارجہ میں تبدیلیوں کا اعلان کیا گا تو محکمے سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور سفارت کاروں کی تقرری کے باعث، فیصلہ سمجھداری کا لگا تھا۔

جون میں مسلم لیگ ۔ نون کے اقتدار سنبھالنے کے وقت سے ہی نئے سیکریٹری خارجہ اور اہم ملکوں کے لیے پاکستانی سفیروں کی تقرریاں حکومتی فیصلے کی منتظر تھیں لیکن تاخیر سے لگ رہا تھا کہ وزیرِ اعظم نواز شریف نے شاید وزارتِ خارجہ کا قلمدان اپنے پاس ہی رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

لیکن تقرریوں کا ایک بار اعلان کیے جانے کے بعد سے اب تک جو کچھ ہوتا رہا، وہ معمہ ہے۔ نامزد سیکریٹری خارجہ کے پاکستان لوٹنے سے قبل ہی، کیے گئے فیصلے میں ردّ و بدل اور اکھاڑ پچھاڑ نے ناموں کو حتمی شکل دینے میں بے یقینی کو جنم دیا جو اب تک بدستور قائم ہے۔

یہ مکمل طور پر ایسی غیر ضروری اور منتشر صورتِ حال ہے، جسے خود حکومت نے ہی جنم دیا۔ اس مسئلے کی جڑ بظاہر، جناب شریف کا وزیرِ خارجہ مقرر نہ کرنے کا فیصلہ نظر آتا ہے۔

قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی ایک دوسرے سے منسلک ہیں (اور وزیر اعظم کے پاس وزارتِ دفاع کا بھی قلمدان تھا لیکن جب لاپتا افراد کے مقدمے میں سپریم کورٹ کا دباؤ بڑھا تو حکومت کو جلدبازی میں یہ وزارت خواجہ آصف کو سونپنا پڑی)۔

خارجہ اور سلامتی کے امور سے متعلق شعبوں میں سویلین قیادت کے لیے مزید گنجائش کی توقع لیے، جناب شریف کی یہ کوششیں شاید دانشمندی سے کیے گئے فیصلے پر مبنی تھیں۔ بجائے اس کےکہ وزیراعظم، پالیسی پر ضروری ہدایات کابینہ کے وزیر کو جاری کریں، زیادہ موثر یہی تھا کہ معاملات انہی کی میز پر رہیں۔

چاہے وہ قومی سلامتی کا محاذ ہو یا پھر خارجہ پالیسی کا معاملہ، یہ جناب شریف کے کُل وقتی وزیرِ خاجہ کی تقرری نہ کرنے کے فیصلے کو زیادہ جواز فراہم نہیں کرتے ہیں۔

وزیرِ اعظم نے خود اپنی ذمہ داری پر مسائل سے جامع طور پر نمٹنے کی خاطر، وزارت خارجہ کے معاملات چلانے کے لیے دو سینئر مشیروں کا تقرر کردیا جو کہ زیادہ کمزور قیادت نہیں ہے۔

سرتاج عزیز اور طارق فاطمی، دونوں ہی گراں قدر تجربے اوراہلیت کی حامل شخصیات ہیں لیکن اداروں اور وزارتوں کو اب تک اعلیٰ سطح پر وضاحت کی ضرورت ہے: کون انچارج ہے اور کس کی بات حتمی ہے؟

اس سوال کو بنا جواب چھوڑ دینے سے اداروں کے اپنے اندر رسّہ کشی ناگزیر ہے، یا شاید یہ رسّہ کشی نہ ہو تب بھی اس سے وزارتِ خارجہ کے مختلف حلقوں کے اندر تقسیم کا احساس پیدا ہوسکتا ہے۔

اس مرحلے پر سیدھے سبھاؤ، سفیروں اور خارجہ سیکریٹری کی تقرریوں کی فوری تصدیق بھی زیادہ عرصے کے لیے کارگر ثابت نہیں ہوگی۔

ضروری ہے کہ جناب شریف کُل وقتی وزیرِ خارجہ کی تقرری نہ کرنے کے اپنے فیصلے پر ازسرِ نو غور کریں یا پھر کم از یہی واضح کردیا جائے کہ جناب عزیز اور جناب فاطمی کن محکموں کے انچارج ہیں اور ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔

اس کے علاوہ، وزیراعظم کا چاہیے کہ بالخصوص افغانستان، امریکا، اور ایران کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں، خارجہ پالیسی کے اندر کچھ جان ڈالیں۔ منہ اٹھائے، فرسودہ راستوں پر چلتے رہنا بامقصد پالیسی کا متبادل نہیں۔

انگریزی میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں