دُہری شہریت

19 دسمبر 2013
بیوروکریٹس کی دُہری شہریت اب نہیں، سینٹ سے قانون منظور، اعلیٰ جج کب تک دور رہیں گے؟ فائل فوٹو۔۔
بیوروکریٹس کی دُہری شہریت اب نہیں، سینٹ سے قانون منظور، اعلیٰ جج کب تک دور رہیں گے؟ فائل فوٹو۔۔

عوامی عہدے کے لیے دُہری شہریت کے معاملے کی گونج بدستور سنائی دے رہی ہے۔ سینٹ نے پیر کو ایک قانون کی منظوری دی جو سرول سرونٹس کو دُہری شہریت رکھنے سے روکتا ہے۔ ایوان نے ایک قراردار منظور کرتے حکومت سے بھی استدعا کی ہے کہ وہ اعلیٰ عدلیہ سے کہے کہ دُہری شہریت رکھنے والے ججوں کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔

پاکستان کے مخصوص سیاسی و تاریخی تناظر میں دُہری شہریت کا معاملہ ایک جذبات انگیز بحث ہے۔ یہ کافی واضح ہے: دُہری شہریت کے حامل ارکانِ پارلیمنٹ کی قبولیت یہاں بہت کم ہے اورعدالت نے ایسے ارکانِ اسمبلی کو فارغ کرنے کی جو کوشش کی، اسے عوامی حلقوں میں وسیع پیمانے پر پذیرائی ملی تھی۔

یقینا، اس طرح کے مباحثوں میں ہمیشہ، خوف اور الگ تھلک کرنے کا خطرہ شاملِ حال رہتا ہے اور تنہائی کی طرف بڑھتے پاکستان کے تناظر میں، ایسی بحث کے لیے ضروری ہے کہ اسے منطقی دلائل اور حقیقت پر مبنی ہونا چاہیے۔

جب سے عدلیہ نے دُہری شہریت کے معاملے پر بحث کو شروع کیا، تب سے زیرِ نظر اخبار ارکانِ پارلیمنٹ پر اس مناسب پابندی کے اطلاق کا خیرمقدم کرتا رہا ہے، خاص طور پر خود آئین پاکستان بھی انہیں کسی دوسرے ملک کی شہریت اختیار کرنے سے روکتا ہے۔ اس پابندی کا اطلاق بیوروکریٹس، ججوں اور سیکیورٹی حکام پر بھی ہونا چاہیے۔

قوانین سازی میں متعدد کردار، پالیسی کے تعین اور اس پر عمل کو دیکھتے ہوئے، سینئر ریاستی حکام اور اعلیٰ عہدیداروں کو ہمیشہ (دُہری شہریت کے سبب) مفادات کے ٹکراؤ جیسے تنازعے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مثال کے طور پر، دفترِ خارجہ یا وزارتِ تجارت میں جب دُہری شہریت کے حامل اعلیٰ حکام، کسی دوسرے ملک کے حوالے سے حقوق یا مراعات کے بارے میں فیصلہ کرنے پوزیشن میں ہوں گے تو وہ کس طرح اُسے نظر انداز کر کے، پاکستانی مفادات کو بالاتر رکھ سکیں گے؟

یا پھر یہ کہ، جب اُن کے سامنے قومی سلامتی کے معاملات ہوں، حتیٰ کہ کبھی کبھار ایک حد کے اندر خود ججوں کو بھی ایسے فیصلے صادر کرنا پڑتے ہیں، تو ایسے میں وہ ریاستی راز جنہیں ایک عام پاکستانی شہری سے خفیہ رکھا جاتا ہو، اسے کسی دوسرے ملک کے شہری کے سامنے کیوں کر ہونا چاہیے۔

ظاہر ہے کہ دیگر ممالک سینئر ریاستی حکام کو دُہری شہریت رکھنے کی اجازت دے سکتے ہیں لیکن ایک کمزور نظام کے سیاق و سباق میں، جہاں عوامی اداروں کو اب تک مکمل عوامی اعتماد حاصل نہیں، وہاں ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس سے اداروں پر عوام کے بڑھتے اعتماد کو کوئی زد پہنچتی ہو۔

جو بات خاص طور پر حیرانی کی ہے، وہ یہ کہ اعلیٰ عدلیہ نے اب تک اس بنیاد پر ججوں کی دُہری شہریت سے متعلق معلومات فراہم کرنے سے انکار کیا کہ قانون انہیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔

دُہری شہریت کے حوالے سے، اعلیٰ عدلیہ دیگر اداروں کے بارے میں نہایت سرگرم رہی ہے تو کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ایک ہی سطح پر رہتے ہوئے، خود کو بھی چھان بین کی خاطر پیش کردیں؟ ملک حقیقت جاننے کا مستحق ہے۔

انگریزی میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں