"نوجوانوں کے لیے قرضے کی اسکیم کی شرائط بینکوں نے طے کی ہیں"

اپ ڈیٹ 19 دسمبر 2013
گزشتہ روز بدھ کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی طرف سے پارلیمانی سیکریٹری برائے خزانہ رانا محمد افضل خان کو نوجوانوں کے لیے قرضے کی اسکیم میں سخت شرائط پر بڑی تعداد میں شکایات کا سامنا کرنا پڑا۔
گزشتہ روز بدھ کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی طرف سے پارلیمانی سیکریٹری برائے خزانہ رانا محمد افضل خان کو نوجوانوں کے لیے قرضے کی اسکیم میں سخت شرائط پر بڑی تعداد میں شکایات کا سامنا کرنا پڑا۔

اسلام آباد: پاکستان کی حکومت نے نوجوانوں کو قرضے فراہم کرنے سے متعلق اسکیم میں شامل سخت شرائط کا ذمہ دار بینکوں کو ٹھہرایا ہے۔

گزشتہ روز بدھ کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی طرف سے پارلیمانی سیکریٹری برائے خزانہ رانا محمد افضل خان کو نوجوانوں کے لیے قرضے کی اسکیم میں سخت شرائط پر بڑی تعداد میں شکایات کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو اور دیگر اراکینِ اسمبلی نےاپنے توجہ دلاؤ نوٹس میں اس معاملے پر حکومتی مؤقف جاننا چاہا۔

اس موقع پر ڈاکٹر مہرین رزاق نے کہا کہ یہ منصوبہ غریب اور بے روزگار نوجوانوں کی مدد کے لیے مرتب کیا گیا تھا، لیکن حقیقت میں ایسا لگ رہا ہے کہ یہ امیر طبقے کے لیے ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ " ایک غریب جو پسماندہ اور دیہی علاقوں میں رہتا ہے قرضہ حاصل کرنے کے لیے آخر وہ کس طرح ایک 15 گریڈ کے حکومتی آفیسر ضامن بننے کے لیے درخواست کرے گا، جس کے پاس قرضے کی رقم سے 150 فیصد زائد رقم موجود ہو۔"

ان کا کہنا تھا کہ ان شرائط کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ منصوبہ صرف ایک مخصوص طبقے کو فائدہ پہنچائے گا۔

اس موقع پر ڈاکٹر مہرین رزاق نے اس اسکیم کے لیے ڈاؤن لوڈ کی گئی ایک درخواست ایوان میں پڑھ کر سنائی، جس میں یہ واضح طور پر لکھا تھا کہ حکومت قرض کی ادائیگی سے متعلق دی گئی مدت میں کسی بھی وقت سود کی شرح کو تبدیل کرسکتی ہے جو موجودہ حالت میں آٹھ فیصد مقرر ہے۔

اس دوران پیپلز پارٹی کے ایک اور رکنِ اسمبلی عمران ظفر لغاری نے توجہ دلاؤ نوٹس میں کہا کہ پوری دنیا میں نوجوانوں اور طالبعملوں کو دیے جانے والے قرضے ناصرف سود سے پاک ہوتے ہیں بلکہ ان میں کسی قسم کے ضامن کی شرائط بھی نہیں ہوتیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت غریب کی مدد کرنے میں واقعی دلچسپی رکھتی ہے تو اسے اس منصوبے پر نظرِ ثانی کرنا ہو گی۔

جمیت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون رکنِ اسمبلی نے حکومت پر زور دیا کہ وہ مذکورہ منصوبے کو سود سے پاک بنائے، کیونکہ یہ غیر اسلامی ہے اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوام نے جب ہمیں منتخب کیا تھا تو کسی ضامن کا مطالبہ نہیں کیا تھا، اب ہم کیوں ان سے ضامن کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔

ان شکایات کو سنے کے بعد پارلیمانی سیکریٹری رانا محمد افضل خان نے کہا کہ یہ رقم بینکوں کی ہے اور حکومت نے ان کی انوسٹمنٹ کے حوالے سے ان کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس منصوبے سے کاروباری افراد کی ایک نئی نسل پروان چڑھانا چاہتی ہے اور یہ بھی کہ صرف حقیقی درخواست گزار ہی اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔

ضامن کی شرائط کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قرض حاصل کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی جائیداد کے کاغذات پیش کرے جس کی مالیت قرض کی رقم سے 150 فیصد زیادہ ہونی چاہئیے اور اس کے علاوہ انہیں کچھ ضمانت بھی دینی ہوگی۔

رانا محمد افضل کا کہنا تھا کہ ماضی میں اس طرح کے بہت سے منصوبے جن میں ییلو کیب اور صدر روزگار پروگرام شامل ہیں، سے کوئی نتائج حاصل نہیں ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ قرضہ صرف ان افراد کو فراہم کیا جائے گا جو کاروبار میں دلچسپی رکھتے ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں