چند سُراغ

20 دسمبر 2013
ومی سلامتی پر کابینہ کمیٹی کا پہلا اجلاس، نتائج کو پھر قیاس آرائیوں پر چھوڑ دیا گیا۔ فائل فوٹو۔۔۔
ومی سلامتی پر کابینہ کمیٹی کا پہلا اجلاس، نتائج کو پھر قیاس آرائیوں پر چھوڑ دیا گیا۔ فائل فوٹو۔۔۔

قومی سلامتی پر کابینہ کمیٹی کی طرف سے کسی بڑے فیصلے کی توقع تو نہیں لیکن منگل کا اجلاس اس لیے اہم تھا کہ گذشتہ ماہ ملک میں نئی فوجی قیادت آنے کے بعد، یہ پہلی مرتبہ منعقد ہوا مگر پرانی کہاوت کے مصداق، قومی سلامتی پر نئی کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں کیا بحث ہوئی اور کیا طے پایا، نتائج کو بدستور ہر ایک کی قیاس آرائیوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

لہٰذا، سول ۔ ملٹری تعلقات کی صورتِ حال، ٹی ٹی پی خطرے سے نمٹنے کے طریقہ کار اور آئندہ دنوں میں ہندوستان، افغانستان اور فاٹا / خیبر پختون خواہ محاذ پر کیا کچھ متوقع ہے، یہ جاننے کے لیے اجلاس کے بعد جاری کردہ سرکاری بیان سے، تجزیے کی خاطر چند سراغ ضرور ملتے ہیں۔ بہر حال، جو سراغ حاصل ہوئے وہ کم از کم مثبت ہوسکتے ہیں۔

اگرچہ ٹی ٹی پی بدستور مذاکرات کے امکانات مسترد کرتی چلی آرہی ہے اور حکومت کی مذاکراتی حکمتِ عملی بدستور الجھنوں میں پھنسی ہے، لہٰذا ایک بار پھر حکومت کا ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا عزم دُہرانا کوئی نئی بات نہیں۔

لیکن اس مرتبہ یہ پہلی بار نظر آیا کہ حکومت نے اس جانب بھی تھوڑی توجہ دی کہ اگر ٹی ٹی پی سے مذاکرات ناکام رہے تو پھر ریاست اس خطرے سے نمٹنے کی خاطر دیگر اقدامات پر بھی غور کرے گی۔

اس ضمن میں، قومی سلامتی پر کابینہ کمیٹی کے اجلاس نے ہندوستان کی طرف بڑھنے کی خاطر، طویل عرصے سے تاخیر کا شکار، دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کی ملاقات کا بھی فیصلہ کیا۔

ساتھ ہی، یہ بھی طے پایا کہ فاٹا کی سیکیورٹی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بین السرحدی (کراس بارڈر) نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھنے سے تجویز ہوتا ہے کہ فاٹا پر فوج کی یہ توجہ نئی ہے۔

اگرچہ اس وقت لفظ 'فوجی آپریشن' حکومت کے لیے نفرت انگیز ہوسکتا ہے تاہم سب سے بہتر کی امید اور سب سے بہتر کے لیے تیاری ایک قابلِ عمل حکمت عملی کا متبادل نہیں ہے۔

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مسئلہ، مذاکرات کے پہلے آپشن کی خاطر تخلیق کردہ حکومتی طریقہ کار میں ہے: ملک سمجھ چکا کہ ٹی ٹی پی اور اس کی چھتری تلے سرگرم نیٹ ورک اور اس کی قیادت پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے، ریاست بیک وقت ایک سے زیادہ گروہوں پر ہاتھ ڈال سکتی ہے۔

حکومت دلیل دے سکتی ہے کہ مختلف محاذوں پر ہاتھ ڈالنے سے، فوری طور پر پاکستان کے اندر تشدد کو روکا جاسکتا ہے لیکن درحقیقت کیا یہ طویل المدت تصفیے کے تناظر میں مددگار ہوگا؟

جیسا کہ خود حکومت دعویٰ کرتی ہے، اگر عسکریت پسندوں سے مذاکرات کا مقصد تشدد کا خاتمہ ہے تو پھر چھوٹے چھوٹے معاہدے اور ان کا نفاذ کس طرح ممکن ہوگا؟ کون اس معاملے کو قومی سلامتی کی کابینہ کمیٹی کے سامنے لے کر آئے گا۔

قومی سلامتی سے متعلق پالیسی کی تشکیل اور اس پر بحث کے لیے ایک رسمی فورم کا قیام یقیناً درست سمت میں ایک مثبت قدم ہے لیکن حقائق پر مبنی تصورات و خیالات پر اچھی طرح غورو فکر کے بغیر عمل کے زیادہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔

اب تک یہ ضرورت موجود ہے کہ حکومت عسکریت پسندی کے خلاف اپنی حکمتِ عملی کے نظریاتی اور عملی پہلوؤں سے متعلق ملک کو قائل کرے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں