تادیبی قوانین

اپ ڈیٹ 23 دسمبر 2013
نیٹو سپلائی میں رکاوٹ، پاکستانی امداد کی بندش کے لیے امریکی کانگریس میں قانون کی تیاریاں۔  فائل فوٹو۔۔۔۔
نیٹو سپلائی میں رکاوٹ، پاکستانی امداد کی بندش کے لیے امریکی کانگریس میں قانون کی تیاریاں۔ فائل فوٹو۔۔۔۔

امریکی وزیرِ دفاع چک ہیگل نے رواں ماہ کے اوائل میں جب اسلام آباد کو دورہ کیا تو قیاس آرائیوں کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا کہ وہ نیٹو / امریکی افواج کے لیے زمینی سپلائی کے راستے میں ڈالی جانے والی رکاوٹیں نہ ہٹانے پر، پاکستان کو امریکی امداد کی بندش سمیت سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر گئے ہیں۔

اس کے فوراً بعد پینٹا گون نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو دھمکیاں نہیں دی گئی ہیں لیکن پاکستان کے بارے میں کانگریس کے مزاج کا چڑھتا پارہ دیکھتے ہوئے شاید ہی یہ بات پاکستان کو مطمئن کرسکی تھی۔

اوراب کم و بیش دو ہفتوں کے بعد، کانگریس میں ایک کے ذریعے تیاریاں ہیں کہ اگر پاکستان میں نیٹو سپلائی کا راستہ بدستور بند رہا اور امریکی وزیرِ دفاع نے مطمئن نہ کیا کہ پاک ۔ افغان سرحد سے متصل علاقوں میں القاعدہ اور دیگر عسکریت پسندوں کے خلاف پاکستان کافی اقدامات کررہا ہے تو پھر، اس تادیبی قانون کے تحت پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مدد کے عیوض ملنےوالی رقم اور دیگر امداد روکی جاسکتی ہیں۔

پاکستان کے لیے بطورِ خاص، اس بل کی شدت میں کمی کے لیے امریکا اپنا کردار ادا کرے گا اور اس کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے اور بہترتعلقات کے لیے امریکا کوشاں ہے تاہم تناؤ غلط نہیں ہے۔

ہمیشہ کی طرح، ایک فریق کے اس طرح کے سخت جواب پر دوسری جانب سے جلد بازی میں ردِ عمل آتا ہے، اور یہ دونوں ہی غیرضروری ہوتے ہیں۔

امریکا کے لیے بنیادی مقصد یہ ہے کہ آئندہ سال تک اس کی زیادہ تر افواج بحفاظت وہاں سے نکل آئیں اور ملک کو مقابلتاً مستحکم انداز سے بین الافغان تصفیے تک لے کر آگے بڑھے۔ ان دونوں مقاصد کے حصول کی خاطر، امریکا کو پاکستان کی واضح مدد درکار ہے۔ لہٰذا، اس مرحلے پر یہ مناسب ہے کہ پاکستان کو امداد روک لیے جانے کی دھمکی دی جائے؟

کانگریس کے لیے تو یہ اچھی سیاست ہوسکتی ہے لیکن خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے تناظر میں، اس طرح کے معاملات میں، تنگ نظری پر مبنی سیاست کی گنجائش کم سے کم ہونی چاہیے۔

پاکستان کے ذریعے زمینی راستوں سے سپلائی کی مخالفت میں یہاں تھوڑی بہت مقصدیت بھی نظر آتی ہے۔ جہاں تک نیٹو سپلائی روکنے کا معاملہ ہے تو یہ فیصلہ صوبائی حکومت کا ہے وفاقی حکومت کا نہیں۔ یہ معاملہ ڈرون حملوں سے جُڑا ہے جو ایسے وقت ہورہے ہیں کہ جب حکومت کو ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے آپشن پر ابھی آگے بڑھنا ہے۔

لیکن نظر یہ آرہا ہے کہ کانگریس معاملات کو داخلی سطح کے سیاق و سباق میں دیکھتے ہوئے اقدامات کررہی ہے اور اس کے اپنے خیال میں یہ اقدامات سیاسی ضروریات کے مساوی ہیں۔ یہ قابلِ افسوس ہے کہ اس کھیل میں وائٹ ہاؤس بھی کانگریس کے ساتھ شریک نظر آتا ہے۔

پاکستان کی آدھی غلطی شامل کیے بنا، امریکا کی خود ساختہ جھنجھلاہٹ کی یہ کہانی مکمل نہیں ہوتی۔

اگرچہ اس اختتامی مرحلے پر، اب تک پاکستان کے اندر عسکریت پسندی سے نمٹنے کی حکمتِ عملی اور افغانستان سے متعلق حکومت کی پالیسی واضح نہیں، جس سے افغان طالبان کے ساتھ ساز باز کی تردید کا وہ سلسلہ بھی کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے، جس پر بظاہر کوئی یقین کرتا نظر نہیں آتا۔

اپنے گھر کو ٹھیک رکنے میں ناکام اور افغانستان میں استحکام کے لیے موثر آپشن کی طرف رہنمائی کرنے کی صلاحیتوں سے عاری ہونے کے بعد بھی، کیا کوئی تعجب کی بات رہ جاتی ہے کہ امریکی کانگریس پاکستان کی طرف شک بھری نظروں سے نہ دیکھے؟

انگریزی میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں