مشرف غداری کیس: خصوصی عدالت میں ٹرائل کی درخواست خارج

23 دسمبر 2013
سابق فوجی صدر پرویز مشرف—فائل فوٹو۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف—فائل فوٹو۔

اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیر کے روز سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے خصوصی عدالت میں ٹرائل، ججز اور پروسیکیوٹر کی تعیناتی اور فوجی عدالت میں کیس کا ٹرائل کرنے کی درخواستیں خارج کردیں ہیں۔

ڈان نیوز کے مطابق عدالت عالیہ کے جسٹس ریاض احمد خان نے خصوصی عدالت میں ٹرائل کیخلاف پرویز مشرف کی درخواست پر سماعت کا آغاز کیا تو سابق صدر کے وکیل خالد رانجھا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مشرف نے تین نومبر کا اقدام بطور آرمی چیف کیا تھا۔

رانجھا کا کہنا تھا کہ ان کے موکل نے جب ایمرجنسی لگائی تو وہ باوردی صدر تھے اس لیے ان کا ٹرائل صرف آرمی ایکٹ کے تحت ہی ہوسکتا ہے کیونکہ آرمی ایکٹ کی دفعہ بانوے کے تحت کسی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی افسر کا ٹرائل سول کورٹ نہیں کرسکتی۔

خالد رانجھا کا مزید کہنا تھا کہ مشرف نے تمام متعلقہ حکام سے مشاورت کے بعد ملک میں ایمرجنسی لگائی لیکن صرف ان کے موکل کو نشانہ بنانا انصاف کے اصولوں کے مطابق نہیں ہوگا۔

عدالت نے خالد رانجھا کو مؤقف کی تائید میں متعلقہ دستاویز کی نقول جمع کرانے کی ہدایت کردی اور مختصر وقفے کا اعلان کیا۔

وقفے کے بعد پرویز مشرف کے وکیل انور منصور خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ وفاقی حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ خصوصی عدالت تشکیل دے جو ہائیکورٹس کے 3 ججوں پر مشتمل ہو، لیکن جب یہ قانون بنایا گیا تب ملک میں 3 ہائی کورٹس تھیں جنکی تعداد اب 5 ہوچکی ہے۔

انور منصور نے کہا کہ چیف جسٹس کے مشورے سے جب ٹرائل کے لیے عدالت تشکیل دی گئی تب چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری تھے جو پرویز مشرف کے خلاف تھے۔

وکیل مشرف نے کہا کہ جن ججوں کو تعینات کیا گیا ہے وہ جانبدار ہیں اور سابق چیف جسٹس کے فعال کارکن ہیں۔

انور منصور نے بتایا کہ صدر مملکت کے علاوہ کوئی آرٹیکل 6 کے خلاف کارروائی کا اختیار نہیں رکھتا،وزیراعظم چاہیں تو وہ صدر کو درخواست کریں گے اور نوٹیفیکیشن صدر کے نام سےجاری ہوگا۔

ان کے مطابق وزیراعظم بھی کابینہ سے منظوری کے بعد ہی آرٹیکل 6 کی کارروائی کی سفارش صدر سے کرسکتے ہیں۔

انور منصور خان نے کہا کہ ایمرجنسی کا فیصلہ کورکمانڈرز مشاورت کے بعد ہوا صرف مشرف کے خلاف کارروائی کیوں کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 90 کے تحت وفاقی حکومت وزیراعظم کے ذریعے صدر کو آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کے لیے لکھے گی لیکن یہاں ایک جوائنٹ سیکرٹری کے ذریعے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، قواعد کے بغیر مشرف کے خلاف کارروائی بدنیتی پر مبنی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 3 نومبر کا پی سی او فرد واحد کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ اس میں 4 گورنرز، چئیرمین جوائنٹ چیفس، وائس چیف آف آرمی اسٹاف اور تمام کور کمانڈرز بھی فیصلے میں شامل تھے تاہم نشانہ صرف سابق صدر کو ہی بنایا جارہا ہے۔

انور منصور خان نے کہا کہ پروسیکیوٹر صرف اٹارنی جنرل ہی ہوگا اگر وہ دستیاب نہ ہوں تو پروسیکیوٹر کوئی ڈپٹی اٹارنی جنرل ہوگا۔

انور منصور نے کہا کہ پروسیکیوٹر نے درخواست گزار پرویز مشرف کے خلاف میڈیا پر بیانات دیے،اس سے پروسیکیوٹر کی جانبداری ثابت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پروسیکیوٹر اکرم شیخ پہلے بھی مشرف کے خلاف پیش ہوتے رہے ہیں۔

انور منصور نے کہا کہ 2007 میں مشرف پر آئین توڑنے کا الزام لگایا گیا،ایمرجنسی میں آئین کی چند شقیں معطل کی گئی تھیں، آئین توڑا نہیں گیا تھا۔

عدالت نے پرویزمشرف کی خصوصی عدالت میں ٹرائل کے خلاف درخواست پر سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔

بعد ازاں عدالت نے پرویز مشرف کی تینوں درخواستیں خارج کردیں۔

پرویز مشرف نے خصوصی عدالت کا قیام، ججز اور پروسیکیوٹر کی تعیناتی چیلنج کی تھی۔

انہوں نے فوجی عدالت میں کیس کا ٹرائل کرنے کی بھی درخواست کی تھی۔

دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ نے مشرف کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کے لیے دائر کردہ اپیل مسترد کردی۔

جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو پر مشتمل ڈویژنل بنچ نے دلائل سنے کے بعد حکم دیا کہ یہ معاملہ ہائی کورٹ کے دائرۂ اختیار میں نہیں آتا اور پرویز مشرف کے وکیل اے کیو ہالیپوتہ کو ہدایت کی کہ وہ ٹرائل کورٹ سے رجوع کریں۔

خیال رہے کہ پرویز مشرف کی تمام مقدمات میں ضمانت کے بعد یہ درخواست گزشتہ مہینے ان کے وکیل کی طرف سے دائر کی گئی تھی جس میں مشرف کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔

سابق فوجی حکمران مشرف کو تمام مقدمات میں ضمانت مل چکی ہے، جو ان کی وطن واپسی کے بعد قائم کیے گئے تھے۔ ان میں بینظیر بھٹو قتل کیس، بلوچ قوم پرست رہنما اکبر بگٹی کی ہلاکت اور لال مسجد کے پیش امام کی ہلاکت سے متعلق مقدمہ شامل ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں