نور جہاں کی یاد میں

23 دسمبر 2013
پاکستانی گلوکار نور جہاں۔- انٹرنیٹ فوٹو
پاکستانی گلوکار نور جہاں۔- انٹرنیٹ فوٹو

تمغۂ امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس کی حامل فلم انڈسٹری کی معروف گلو کارہ ملکہ ترنم نور جہاں کی 13ویں برسی آج ملک بھر میں منائی جا رہی ہے۔

اس سلسلہ میں تمام نگار خانوں، آرٹس کونسلز میں تعزیتی ریفرنسز منعقد کئے گئے جبکہ ان کے مداحوں و پرستاروں نے بھی انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے خصوصی تقاریب کا اہتمام کیا۔

ملکہ ترنم نور جہاں 21 ستمبر 1926 کو قصور میں پیدا ہوئیں، ان کا اصل نام اللہ وسائی جبکہ نور جہاں ان کا فلمی نام تھا۔

نور نے اپنے فنی کریئر کا آغاز 1935 میں 'پنڈ دی کڑی' سے کیا جبکہ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے شوہر شوکت حسین رضوی کے ہمراہ ممبئی سے کراچی شفٹ ہوگئیں۔

انیس سو ستاون میں انہیں شاندار پرفارمنس کے باعث صدارتی ایوارڈ تمغۂ امتیاز اور بعد میں پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔

انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں انہوں نے میرے ڈھول سپاہیا، اے وطن کے سجیلے جوانوں، ایہہ پتر ہٹاں تے نئی وکدے، او ماہی چھیل چھبیلا، یہ ہواؤں کے مسافر، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو، میرا سوہنا شہر قصورنیں سمیت بے شمار ملی نغمے گا کر قوم اور فوج کے جوش و ولولہ میں اضافہ کیا۔

نور جہاں نے مجموعی طور پر 10 ہزار سے زائد غزلیں و گیت گائے جن میں ان کا سب سے پہلا گانا مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ بے پنا ہ ہٹ ہوا جس نے ملکۂ ترنم کو کامیابیوں کے نئے سفر پر گامزن کر دیا۔

ملکۂ ترنم نے کئی فلموں میں کامیاب اداکاری و گلوکاری کے جوہر دکھائے جن میں ایماندار، پیام حق، سجنی، یملا جٹ، چوہدری، ریڈ سگنل، سسرال، چاندنی، دھیرج، فریاد، خاندان، نادان، دہائی، نوکر، لال حویلی، دوست، زینت، گاؤں کی گوری، بڑی ماں، بھائی جان، انمول گھڑی، دل، ہمجولی، صوفیہ، جادوگر، مرزا صاحباں، انار کلی، لخت جگر، پاٹے خان، چھومنتر، نیند، کوئل وغیرہ شامل ہیں۔

یاد رہے کہ ملکۂ ترنم نور جہاں 23 دسمبر 2000 کو 74 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔

اگرچہ آج وہ ہم میں نہیں لیکن ان کی غزلیں اور گیت آج بھی عوام کے دلوں میں رس گھول رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں