اسلام آباد: توانائی کی طلب اور رسد کے درمیان فرق میں اضافے کی وجہ سے وفاقی حکومت نے ملک بھر میں آج سے روزانہ دو گھنٹے کی لوڈشیڈنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

گزشتہ روز پیر کو یہ فیصلہ سالانہ کینال کی بندش اور ٹیکسائل انڈسٹری کو گیس کی فراہمی کے باعث بجلی کی طلب اور رسد میں بڑھتے ہوئے فرق کی وجہ سے کیا گیا۔

وزارتِ پانی و بجلی کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ انڈس ریور سسٹم کی طرف نہروں کی سالانہ بندش کے باعث ڈیموں میں پانی کے اخراج میں کمی کی وجہ سے آج منگل سے مک بھر میں دو گھنٹے کی لوڈشیڈنگ شروع کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

بیان میں ساتھ ہی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ اس فیصلے سے عوام کو مشکلات ہوں گیں۔

ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ چار گھنٹے سے تجاوز کرسکتا ہے، لیکن بڑے شہروں میں اسے دو گھنٹے ہی رکھا جائے گا، جبکہ دیہاتوں اور ان علاقوں میں جہاں سے بلوں کی وصولی کم ہوتی ہے، زیادہ سے زیادہ لوڈشیڈنگ کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کچھ صارفین کو دس گھنٹے سے بھی زائد دورانیہ کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت ارسا کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ واپڈا کو تربیلہ ڈیم سے بھاری مقدار میں پانی فراہم کرے تاکہ بجلی کی طلب اور رسد میں فرق کم ہوسکے۔

توانائی کے اس بحران سے نمٹنے کے لیے صارفین کو مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ وہ کچھ وقت کم سے کم بجلی کا استعمال کریں۔

ایک سرکاری اہلکار نے کہا کہ ارسا نے اپنے چیئرمین کی غیر موجودگی کی وجہ سے وزارتِ پانی و بجلی کے مطالبے کو رد کردیا۔

اہلکار کا کہنا تھا کہ ارسا سے کہا گیا تھا کہ وہ سالانہ کینال کی بدش کے دوران پینے کے پانی کی غرض سے آٹھ ہزار کیوسک کے معمولی اخراج کے برعکس تربیلہ ڈیم سے پندرہ سے بیس ہزار کیوسک پانی کے اخراج کی یقین دہانی کروائے۔

انہوں نے کہا کہ ارسا کے سربراہ 26 دسمبر کو واپس آجائیں گے جس کے بعد وہ ایک اجلاس میں حکومتی مطالبے پر غور کریں گے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت نے منگلہ ڈیم سے بھاری مقدار میں پانی کے اخراج کا مطالبہ نہیں کیا، کیونکہ واہاں سے پنجاب کو وسیع مقدار میں پانی فراہم کیا جارہا ہے اور پانی کے زیادہ اخراج سے اسے محفوظ کرنے کے لیے مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔

انڈس ریور اتھارٹی (ارسا) کے ایک عہدیدار نے کہا کہ بظاہر ایسالگتا ہے کہ ارسا کے اراکین حکومت مطالبے کو تسلیم کرلیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ پینے کے پانی کو استعمال سے پہلے مکمل طور پر فلٹر کیا جاتا ہے، لیکن صنعتی شعبے کی وجہ ارسا کے نظام میں آلودگی میں اضافہ ہوا ہے اور اس کو روکنے کے لیے دریاؤں کے بہاؤ کے ساتھ ہی فلٹریشن کا نظام نصب ہونا چاہیے۔

وزارتِ پانی و بجلی کے اہلکار کا کہنا ہے کہ توانائی قلت کی وجہ صرف نہروں کی سالانہ بندش ہی نہیں ہے بلکہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان دنوں ملک کے زیادہ تر علاقوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے آگئے ہیں۔

انہوں نے کہا ایک بڑی وجہ اور بھی ہے کہ پاور اور ٹیکسائل یونٹس کو روزانہ 100 ملین مکعب فٹ گیس فراہم کی جارہی ہے جس سے 450 میگاوٹ بجلی کی کمی ہوگئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں کوٹری کینال 26 دسمبر سے بند ہوجائے گی جس کے بعد سکھر کینال 6 جنوری، جبکہ پنجاب کی نہریں سالانہ مرمت کے لے 25 دسمبر سے 31 جنوری تک بند رہیں گی جس کے نتیجے میں 35 دنوں کے لیے پن بجلی گھر میں 1000 میگاوٹ کی کمی ہوجائے گی۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ کینال کی بدش کے ساتھ بحالی پروگرام کی وجہ سے واپڈا کے تھرمل اسٹیشنوں میں بجلی کی پیداوار پندرہ سو سے دو ہزار میگاوٹ کی مستحکم سطح پر رہے گی اور پھر زیادہ سے زیادہ اس پر انحصار کرنا ہوگا، لہٰذا آئی پی پی ایس میں منتقلی سے زیادہ تر فرنس آئل اور ڈیزل کا استعمال کیا جائے گا جس کے نتیجے میں بجلی پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں