تبدیلی کیونکر ممکن ہو؟

اپ ڈیٹ 06 مئ 2016
السٹریشن
السٹریشن

اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران صحافیوں کو درپیش مصائب کو 'پیشہ وارانہ خطرہ' تصور کیا جاتا ہے جسے یہ صحافی اپنے رویے اور چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ برداشت کرتے ہیں-

تاہم اپنے ساتھیوں کی جانب سے جس ذہنی، جسمانی اور جنسی اذیت کا سامنا خواتین صحافیوں کو ہوتا ہے اس معاملے پر پاکستانی میڈیا میں بہت کم بات کی جاتی ہے-

انٹرنیشنل نیوز سیفٹی انسٹیٹیوٹ اور انٹرنیشنل وومن میڈیا فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، چونسٹھ عشاریہ اڑتالیس فیصد خواتین صحافیوں کو اپنے کام کے حوالے سے دھمکیوں، خطرات یا بدسلوکی کا تجربہ حاصل رہا ہے-

اسی سروے کے مطابق چھیالیس اعشاریہ بارہ فیصد جواب دہندگان کا کہنا یہ تھا کہ انہیں کام کے دوران اپنے ساتھیوں، حکام اور انٹرویو لینے والوں کی طرف سے جنسی ہراس کا سامنا رہا ہے-

حال ہی میں پاکستانی میڈیا نے، ایک ہندوستانی صحافی، تہلکہ کے بانی اور ایڈیٹر انچیف، ترون تیجپال کی کہانی میں دلچسپی کا اظہار کیا جس نے مبینہ طور پر اپنی جونیئر خاتون صحافی پر جنسی حملہ کیا، یہ خاتون صحافی ان کے دوست کی بیٹی اور تیجپال کی اپنی بیٹی کی بہترین دوست بھی تھی-

خود کو 'کامی کازی' آرٹسٹ کہلانے والے تیجپال سے زیادہ تر پاکستانی واقف نہیں، جبکہ انگلش پریس میں انہیں اپنے اسٹنگ آپریشنز اور ادبی دانشوری کے لئے قابل احترام سمجھا جاتا ہے-

جب تیجپال کی کہانی سامنے آئی تو پاکستانی نیوز رومز اور پریس کلبز میں، ادھیڑ عمری کے بحران پر بھدے لطیفوں سے لے کر گرما گرم بحث تک کہ "ایک معزز ایڈیٹر آخر ایسی حرکت کیوں کرے گا؟" جیسے مختلف ردعمل دیکھنے میں آۓ-

"مجھے شک ہے کہ پاکستانی پریس ایسی کسی بھی کہانی کو ترجیح دے گا جس میں ایک ایڈیٹر ملوث ہو، حالانکہ ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے"، ایک مقامی وائر سروس کے صحافی صابر (اصلی نام نہیں ہے) نے کہا-

انہوں نے بتایا کہ کس طرح چند سال پیشتر ایک سینئر خاتون رپورٹر کو ایک چینل کے سربراہ نے ہراساں کیا لیکن پورے سوشل میڈیا پر بازگشت کے باوجود پاکستانی پبلیکیشن یا ٹی وی چینل اس پر خاموش رہے-

خاموشی کی پالیسی گزشتہ دہائی کے دوران پاکستانی میڈیا میں ہونے والی ترقی غیر معمولی ہے، جس کے نتیجے میں زیادہ جابز اور نیوز روم میں خواتین کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے- میڈیا ویسے تو ریپ اور جنسی حملوں کے کیسز سامنے لانے پر ہمہ وقت تیار رہتا ہے لیکن میڈیا کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے اس پر انہوں نے خاموشی کی غیر تحریر شدہ پالیسی اپنا رکھی ہے- اپنی چمک دمک کے پیچھے چھپے جنسی فیور کی کہانیوں کے لئے بدنام، انٹرٹینمنٹ سے الگ، میڈیا کا سنجیدہ پہلو بھی دلخراش داستانوں سے بھرپور ہے، وہ میڈیا ہاؤسز جو جنسی ہراس کے خلاف قوانین کے لئے شعوری مہم چلاتے ہیں وہی ان قوانین سے بچ نکلنے کے راستے ڈھونڈتے ہیں-

پاکستان میں ملازمت کے دوران جنسی ہراس کے خاتمے کے لئے مناسب قوانین موجود ہیں، خصوصاً "دی پروٹیکشن اگینسٹ ہراسسمنٹ آف وومن ان ورک پلیس ایکٹ، 2010-

اس ایکٹ میں، پاکستان پینل کورٹ 1860 (ایکٹXLV-1860) اور کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1898 (ایکٹ 1898 V) میں ترمیم کی گئی جس کا تعلق "شرم حیا کی خلاف ورزی" سے ہے-

تاہم، زیادہ تر پاکستانی اس کے مندرجات سے ناواقف ہے، حتیٰ کے وہ بھی جو میڈیا میں کام کر رہے ہیں-

اس ایکٹ کے مطابق، جنسی ہراس، "کسی بھی قسم کی ناپسندیدہ جنسی پیشقدمی، جنسی فیور کا تقاضہ، یا جنسی نوعیت کے دیگر زبانی یا تحریری رابطے یا جسمانی طرزعمل یا جنسی ساخت کا رویہ ہے، جس سے کارکردگی میں مداخلت ہو یا ملازمت کے لئے دھمکی آمیز، مخالفانہ یا جارحانہ ماحول پیدا ہو جاۓ، یا ایسی کسی درخواست پر شکایت گزار کی جانب سے انکار کی صورت میں اسے سزا دینے کی کوشش کی جاۓ یا اسے ملازمت کے لئے ایسی کوئی شرط رکھی جاۓ-

ایک ٹی وی رپورٹر نے سنہ دو ہزار دس میں جونیئر رپورٹر کی حیثیت سے اپنے پہلے جنسی ہراس کا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا، تب وہ میڈیا ٹریننگ کے لئے بیرون ملک جانے والے ایک پاکستانی صحافی گروپ کا حصّہ تھیں-

"پہلی رات ڈنر کے دوران، ہمارے ٹی وی چینل کے چیف رپورٹر اور ایک دوسرے صحافی نے جب مجھ سے پوچھا کہ کیا میں "تفریح کرنا چاہتی ہوں"، تھوڑا عجیب محسوس کرتے ہوئے میں نے انکی پیشکش مسترد کردی اور سیدھے اپنے کمرے میں چلی گئی- گیارہ بجے رات کو میرے پاس ایک فون کال آئی- چیف رپورٹر نے مجھے ایک نیوز پیکج پر بات کرنے کے لئے اپنے کمرے میں طلب کیا- میرے انکار کرنے پر انہوں نے مجھے شو کاز نوٹس کی دھمکی دی"، انہوں نے بتایا-

ایک ہفتے کی اس ٹریننگ میں بہت سی متنازعہ باتیں ہوئیں، ایک خاتون صحافی کی سوفٹ ڈرنک میں مبینہ طور پر گروپ میں موجود کسی مرد نے نشہ آور دوا ملا دی تھی، وہ خاتون نہایت غیر حالت میں ہاؤس کیپنگ سٹاف کو ملیں، وہ خاتون نروس بریک ڈاون کی حد کو پہنچ گئی-

اس زمانے میں دفاتر میں ایذا رسانی کے خلاف کوئی قانون نہ تھا- تاہم، اس صحافی نے ہمت کا ثبوت دیتے ہوۓ شکایت درج کروائی، خوش قسمتی سے اس کے پاس عینی شاہد بشمول ہوٹل سٹاف موجود تھے-

مینجمنٹ نے بروقت کاروائی کی اور اس رپورٹر کو نوکری سے نکال دیا-

"تاہم مجھے ردعمل کی توقع نہ تھی- مجھے بدنام کرنے کے لئے اتنی شدید مہم چلائی گئی کہ مجھے اپنے ہوش حواس واپس لانے کے لئے ایک سال تک کام سے علیحدہ ہونا پڑا"-

پرنٹ، الیکٹرانک اور آن لائن نیوزروم ماحول انتہائی اعصاب شکن ہوتا ہے، معمولی چھیڑ چھاڑ قابو سے باہر ہوکر ہراسمنٹ میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی-

"اس پر مزید یہ کہ، ہمیشہ کوئی نہ کوئی کیمرہ مین، میک اپ مین، یا کوئی پروڈیوسر ایسا موجود ہوگا جو آپ کو چھونا چاہے گا، آپ سے ٹکرا کر گزرے گا، یا بیباکانہ طور پر اسائنمنٹس کے بدلے آپ سے کسی قسم کا فیور مانگے گا"، رپورٹر نے بتایا-

ایک خاتون صحافی کے مطابق مرد صحافیوں کی جانب سے "حادثاتاً" بھیجی جانے والے ذومعنی ایس ایم ایس، ایم ایم ایس اور ای میلز کی تعداد حد سے زیادہ ہے- مرد صحافی اور کیمرہ مین سمیت دیگر کی یہ راۓ ہے کہ جنسی فیور اور ایذا رسانی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور اس سے کسی خاتون صحافی کا کیریئر یا تو بن سکتا ہے یا ختم ہو سکتا ہے-

ایک اور خاتون صحافی کا کہنا ہے کہ انہیں کبھی بھی ان کے سپروائزورں نے کوئی بڑا اسائنمنٹ نہیں دیا کیوں کہ انہوں نے اپنے سپروائزروں کے مطالبے ماننے سے انکار کر دیا، جس میں ان کے ساتھ چاۓ پینے اور انکی بیگمات کے مسائل سننے سے لے کر تعلقات بنانے تک شامل تھے-

"اگر میں کوئی رپورٹ لے کر آتی ہوں تو اسے بنا کسی وجہ کے ایک سائیڈ پر کر دیا جاتا ہے، اور پھر ایک ہفتے بعد کوئی دوسرا رپورٹر اسی پر کام کر رہا ہوتا ہے"، انہوں نے بتایا-

INSI -IWMF کے سروے کے مطابق، 93.09 فیصد جنسی طور پر ہراساں جرائم مردوں کی طرف سے کے گۓ، جن میں لباس پر ناپسندیدہ تبصرے، ذومعنی ریمارکس اور آوازیں، اور جنسی نوعیت کے لطائف عام ہیں-

"زیادہ تر جنسی ہراس کی شکایات نہ تو مالکان سے کی جاتی ہے نہ پولیس سے اور نہ ہی دیگر حکام سے"، سروے میں بتایا گیا-

تبدیلی کی خواہش کا فقدان: "پروٹیکشن اگینسٹ ہراسسمنٹ آف وومن ایٹ دی ورک پلیس ایکٹ 2010"، پاس ہونے کے ساتھ، ہر آرگنائزیشن کو قانون کی طرف سے تجویز کردہ ضابطہ اخلاق اپنانا چاہیے-

یہ ضابطہ اخلاق، ایذا رسانی کے معاملے پر ملازمین میں شعور پیدا کرنے پر زور دیتا ہے اور یہ تجویز کرتا ہے کہ ضابطہ، نمایاں مقامات پر اور ایسی قابل فہم زبان میں پیش کیا جاۓ جسے ملازمین آسانی سے سمجھ سکیں-

ایسا نہ کرنے کی صورت میں ایک لاکھ روپے کا ہرجانہ بھرنا پڑے گا-

تاہم، یہ ضابطہ اخلاق اپنانے میں کئی نیوز ایجنسیوں کو ہچکچاہٹ لاحق ہے-

سواۓ تین میڈیا ہاؤسز کے، زیادہ تر اردو پبلیکیشن اور ٹی وی چینلز میں کہیں بھی یہ ضابطہ اخلاق ظاہر نہیں ہے اور نہ ہی اس حوالے سے سٹاف کو کوئی تربیت دی گئی ہے- اور یہی حال ریاستی وائر ایجنسی اور پرائیویٹ ایجنسیوں کا ہے-

راولپنڈی کے ایک روزنامہ کے صحافی کا کہنا ہے کہ ایسے کسی بھی قسم کے مواد کی نمائش سب کے لئے مزید مشکلات کھڑی کریں گی، ذرا شوخی کے ساتھ انہوں نے یہ بھی اضافہ کیا، "ہمارے آفس میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ یہاں کوئی خاتون نہیں ہے-"

نوجوانوں، جنس اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک این جی او، مہر گڑھ کی ڈائریکٹر ملیحہ حسین کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے مقابلے میں پرنٹ میڈیا کی طرف سے اکثر موصول ہونے والے شکایات کی تعداد کافی کم ہے-

تاہم، ساتھ ہی ملیحہ نے پاکستانی میڈیا کے دہرے معیار کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا "پاکستانی میڈیا ہر کسی کو ذمہ دار کہتا ہے لیکن خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے، پیشہ وارانہ اخلاقیات اس حد تک زوال پذیر ہو گئی ہیں کہ انہیں کسی قسم کی برائی سے کوئی فرق نہیں پڑتا-"

انہوں نے کہا کہ ابتدا میں، (کالعدم) الائنس اگینسٹ سیکسشل ہراسسمنٹ (AASHA) اور مہرگڑھ نے ضابطہ اخلاق کی نمائش اور معلوماتی سیمینار کے اہتمام کے لئے پریس کلبز سے رابطہ کیا- لیکن انکی درخواست مسترد کر دی گئی-

شیطانی چکر پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمینٹ آف وومن ایٹ ورک پلیس کے لئے وفاقی محتسب سیکرٹریٹ کو اس سال مختلف پرائیویٹ اور پبلک ملازمین کی طرف سے ایک سو پینسٹھ شکایات موصول ہوئیں لیکن میڈیا کی طرف سے ایک بھی نہیں-

تاہم، میڈیا انڈسٹری کے اندر موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ میڈیا ہاؤسز کی مینجمنٹس کو بڑی تعداد میں شکایات موصول ہوتی ہیں لیکن زیادہ تر یا تو انکی شنوائی نہیں ہوتی یا شکایت کنندہ اپنی شکایت واپس لے لیتا ہے-

ڈان نے جن مرد و خواتین صحافیوں سے اس حوالے سے سوال کیا، ان میں سے زیادہ تر کا کہنا تھا کہ دوران ملازمت ایذا رسانی کی شکایت نہ درج کروانے اور اسے آگے نہ بڑھانے کی پہلی وجہ بدنامی کا ڈر اور ملازمت ختم ہو جانے کا خدشہ ہوتا ہے-

بہت سی خواتین کا کہنا تھا کہ ہراسمنٹ کی شکایت دائر کرنا ان کے کیریئر کے لئے نقصان دہ ہے-

باقیوں کا کہنا ہے کے انکوائری کمیٹی فضول ہوتی ہیں، "کمپنی اسی شخص کو رکھے گی جو اس کے لئے اہم ہے، یہاں فیصلے من مانے کیے جاتے ہیں، زیادہ تر کیسز میں انکوائری کمیٹی کو پیشگی معلومات ہوتی ہیں-"

ایک خاتون صحافی نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے ایڈیٹر سے شکایت کی تو انکا جواب سن کر وہ سکتے میں آگئی، "تم تو شکل صورت میں اتنی اچھی بھی نہیں ہو-"

انہوں نے کہا کہ شکایت درج کروانے کا باوجود کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا-

"دو ماہ کے عرصے میں ایک انکوائری بٹھائی گئی، مجھے ایک دوسرے سیکشن میں منتقل کر دیا گیا- لیکن میری بارہا گزارش کے باوجود کوئی فیصلہ نہ سنایا گیا- آخر کار میں نے ملازمت چھوڑ دی"، انہوں نے بتایا- ضابطہ اخلاق کے مطابق، ایک تین رکنی انکوائری کمیٹی نے تیس دن کے اندر اندر معاملہ نمٹانا ہوتا ہے اور مینجمنٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ یہ عمل منصفانہ ہو اور شکایت گزار کے ساتھ کسی قسم کی انتقامی کارروائی نہ ہو-

وفاقی محتسب جسٹس یاسمین عباسی نے ڈان کو بتایا کہ اگر کسی نے شکایت دائر کی ہے تو اس شخص پر ہتک عزت کا مقدمہ دائر نہیں ہو سکتا-

"یہ خالی خولی دھمکیاں ہیں- انٹرنل انکوائری کا انتظام کرنا تنظیم کی ذمہ داری ہے- اگر شکایت کنندہ مطمین نہیں ہے تو وہ دفتر محتسب آسکتے ہیں- ہتک عزت کا دعویٰ اس وقت دائر کیا جا سکتا ہے جب الزامات جھوٹے ہوں- کوئی بھی شکایت کنندہ کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر نہیں کر سکتا"، انہوں نے اس بات پر اصرار کیا-

مرد و خواتین کی جسمانی اور ذہنی ساخت مختلف ہوتی ہے لیکن انہیں ایک ساتھ مل کر کام کرنا سیکھنا چاہیے اور سب سے اہم یہ کہ ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھنا چاہیے"، محتسب اعلیٰ نے کہا-

ہمارے پاس ہراساں کرنے کی شکایت کا سراغ لگانے کے لئے ایک نظام موجود ہے- قانون ایسے لوگوں کی حمایت کرتا ہے، اس کے لئے لوگوں کو آگے آنا ہوگا اور ہمیں بتانا ہوگا ورنہ کوئی تبدیلی نہیں آۓ گی"، جسٹس عباسی نے کہا-

انگلش میں پڑھیں

[email protected]

ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں