دُھند چھٹنے لگی

26 دسمبر 2013
ہندوستان اور پاکستانی ڈی جی ایم اوز کے درمیان خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی—تصویر بشکریہ آئی ایس پی آر۔
ہندوستان اور پاکستانی ڈی جی ایم اوز کے درمیان خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی—تصویر بشکریہ آئی ایس پی آر۔
—تصویر بشکریہ آئی ایس پی آر
—تصویر بشکریہ آئی ایس پی آر
مذاکرات کے بعد جاری مشترکہ اعلامیہ کے مطابق لائن آف کنٹرول پرجنگ بندی برقرار رکھنے کا اعلان کیا گیا—تصویر بشکریہ آئی ایس پی آر۔
مذاکرات کے بعد جاری مشترکہ اعلامیہ کے مطابق لائن آف کنٹرول پرجنگ بندی برقرار رکھنے کا اعلان کیا گیا—تصویر بشکریہ آئی ایس پی آر۔
۔— —تصویر بشکریہ آئی ایس پی آر
۔— —تصویر بشکریہ آئی ایس پی آر

سفارتی، تجارتی اور شہریوں کے ایک دوسرے سے رابطے اپنی جگہ لیکن دشمنی پر مبنی تاریخ کے تناظر میں، دونوں ملکوں کے سینئر فوجی حکام کی ملاقات نہایت قدر و قیمت کی حامل علامت ہے۔

پاکستان اور ہندوستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کی یہ ملاقات ایک دوسرے کو، بہتر طور پر سمجھنے کی خاطر، قریب تر لانے میں معاون ثابت ہوگی۔ ملاقات کی ابتدائی اہمیت اس باعث بھی ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف کی قوموں کو کسی بھی لمحے کشیدگی کی دبیز تہ میں لپیٹ دینے والے مقام اور وسیلے کے ذمہ دار یہی دماغ ہیں۔

توقع ہے کہ یہ ملاقات دونوں کو اس نکتے پر لانے کی خاطر استعمال کی جائے گی کہ جہاں سے وسیع پیمانے پر غلط فہمیوں، فوجی چالوں اور قومی پالیسیوں کی عکاسی نہ ہونے کا نتیجہ، سرحدی کشیدگی کی صورت میں نکلتا ہے۔ امید ہے کہ ڈی جی ایم اوز اپنے وقت کو ایک دوسرے کے قریب تر آنے کی خاطر استعمال کریں گے۔

یہ ملاقات، گذشتہ ستمبر میں وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کے ہم منصب من موہن سنگھ کے درمیان نیویارک میں ہونے والی ملاقات کا نتیجہ ہے۔ واضح طور پر اس ملاقات کی ضرورت اس لیے بھی تھی کہ دونوں ممالک کی افواج کے درمیان ہاٹ لائن رابطے کے نتائج خواہشات کے مطابق نہیں نکل رہے تھے۔

اطلاعات کے مطابق اسلام آباد کی خواہش تھی کہ اس ملاقات کے دوران سفارت کار بھی موجود ہوں، ہندوستانی میڈیا کے مطابق اس قدم کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی تاہم ہندوستان اسے دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز اور صرف اُن چند سینئر فوجی حکام تک محدود رکھنا چاہتا تھا، جو ملاقات کے دوران اپنے اپنے اعلیٰ فوجی حکام کی معاونت کرسکیں۔

ہوسکتا ہے کہ ملاقات کے نتائج آگے چل کر، اجلاس میں سفارت کاروں کے لیے بھی گنجائش کی فراہمی کا سبب بنیں لیکن جو حالیہ اشارے ہیں ان سے، امن عمل کی تحریک پر پیشرفت کے واسطے پاکستان کی ہر ممکن کوششوں کا اظہار ہوتا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کا قیام وزیرِ اعظم نواز شریف کی دلی خواہش ہے تاہم ماضی میں امن کی ایسی خواہشات پر ردِ عمل، دردناک صورت میں آتا رہا کہ جب اچانک رونما واقعات، ان خواہشات پر غالب آتے چلے گئے تھے۔

پاکستان اور ہندوستان کی سرحدیں بھی ویسی ہی حساس ہیں جیسا کہ ان خطوں میں جہاں امن عمل کی نہایت سختی سے حفاظت کی جاتی ہو، البتہ یہ بعض پیشرفت کی بھی نشاندہی کررہے ہیں۔

موسمِ گرما کے دوران لائن آف کنٹرول پر گولہ باری کے سلسلے نے دونوں ملکوں کے درمیان شدید تناؤ پیدا کردیا تھا لیکن ماضی کے مقابلے میں اس بار، فریقین کے اپنی اپنی حد تک رہنے کا اظہار بھی ہوا ہے۔

اس رویے کو، اس نظریے سے لڑنے کی خاطر بھی استعمال کیا جائے جس کے مطابق، کہا جاتا ہے کہ سرما کی شدت کے سبب کنٹرول لائن پر کشیدگی کو تھپکیاں دے کر سلادیا جاتا ہے اور برف پھگلنے کے ساتھ ہی یہ دوبارہ جاگ اٹھتا ہے۔

منگل کو واہگہ بارڈر پر دونوں ملکوں کے ڈی جی ایم اوز، اور اتفاق سے پاکستان رینجرز اوران کے بھارتی ہم منصب بارڈر سیکیورٹی فورس کی ملاقات، دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے واسطے اہم سنگِ میل ہے۔

اس آغاز کے بعد، بروقت اور بدستور قریبی رابطے رکھنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ بہرحال، تمام تر جھوٹے اقدامات کے بعد، انہیں یقینی بنانا ہوگا کہ اس مرتبہ کیے گئے اعلانات، عارضی طور پر دامن چھڑانے کے بجائے، ماضی سے مستقل چھٹکارا ثابت ہوں۔

انگریزی میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں