طویل المعیاد حل

27 دسمبر 2013
فرقہ واریت کا خاتمہ، فرقے کے نام پر عسکریت پسندوں کو حاصل گنجائش کے خاتمے میں ہے۔فائل فوٹو۔۔۔۔
فرقہ واریت کا خاتمہ، فرقے کے نام پر عسکریت پسندوں کو حاصل گنجائش کے خاتمے میں ہے۔فائل فوٹو۔۔۔۔
ہر سال مذہبی نوعیت کے مواقعوں پر دہشت گردی کے خطرات بڑھ جاتے ہیں جس کا مطلب کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے اقدامات بدستور جاری رکھنے کی ضرورت ہے، فائل فوٹو۔۔۔
ہر سال مذہبی نوعیت کے مواقعوں پر دہشت گردی کے خطرات بڑھ جاتے ہیں جس کا مطلب کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے اقدامات بدستور جاری رکھنے کی ضرورت ہے، فائل فوٹو۔۔۔

یہ ایسے وقت کی علامت ہے کہ جہاں 'صرف' مٹھی بھر اموات سے مُراد لی جاتی ہے کہ کوئی خاص موقع نسبتاً پُرامن طور پر گذرچکا۔ چہلمِ امام حسین کے موقع پر شہر میں، منگل کو اورنگی ٹاؤن کی ایک امام بارگاہ کے باہر دھماکے سے کم از کم چار افراد اپنی جانوں سے گئے۔

کسی اور وقت، کسی اور مقام پر اگر ایسا بے حس تشدد ہوتا تو ضرور دھچکا لگتا لیکن اس وقت جو حالات ہیں، اس کے تناظر میں اگر دہشتگردی کے کسی واقعہ میں نقصان صرف چند جانوں تک رہے تو ریاست اور معاشرہ، دونوں ہی سکھ کا سانس بھرتے ہیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ دہشتگرد اس سے بھی کہیں بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی پھیلانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس موقع پر صرف تنہا کراچی میں معصوم شہریوں کا خون بہا ورنہ پورے ملک میں چہلم امام حسین بنا کسی سانحے کے، پُرامن طور پر گذرا ہے۔ چہلم سے قبل، خاص طور پر راولپنڈی میں فرقہ وارانہ تناؤ تھا، وہ بھی اُس خونی فرقہ وارانہ تصادم کے باعث جو یوم عاشور پر ایک مسجد کے سامنے سے جلوس گذرنے پر پھیلا تھا۔

بڑے پیمانے پر خطرات کے باعث، جلوسِ چہلم کے پُرامن انعقاد کے انتظامات پر انتظامیہ تعریف کی مستحق ہے۔ پورے ملک، خاص طور پر جہاں فرقہ وارانہ تناؤ کے زیادہ خطرات تھے، وہاں بھاری پیمانے پر پولیس، نیم فوجی دستے اور فوج کی تعیناتی نے امن و امان کے قیام میں بڑی مدد دی۔

اگرچہ راولپنڈی میں شدت پسندوں نے گڑبڑ پھیلانے کی کوشش کی تھی لیکن ان سے فوری طور پر کامیابی سے نمٹا گیا تاہم، جیسا کہ کراچی میں ہونے والے دھماکوں سے ظاہر ہے، بعض چھوٹے واقعات ہوئے جن سے خوف پھیلا۔ اورنگی ٹاؤن دھماکے کے علاوہ، جلوسِ چہلم کے مرکزی راستے ایم اے جناح روڈ پر بھی بم دھماکا ہوا۔

شہریوں کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ پھر بھی وہ پُرامن رہے۔ اگر یہ دھماکا جلوس گذرتے وقت ہوتا تو نتیجہ بڑے سانحے کی صورت میں نکلتا۔ یہ اس جانب اشارہ ہے کہ انٹیلی جنس اور سیکیورٹی کے اقدامات کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

ہر سال مذہبی نوعیت کے مواقعوں پر دہشت گردی کے خطرات بڑھ جاتے ہیں جس کا مطلب کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے اقدامات بدستور جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔

اگرچہ کسی بھی قسم کے خطرے کی روک تھام کے لیے سکیورٹی کا چوکس رہنا اہم ہے تاہم، تمام اطراف سے، فرقہ وارانہ عسکریت پسندی کے پیچھے جو عناصر تشدد کا باعث بن سکتے ہیں، ان سے موثر طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ جلوس گذرنے کے راستے یا نفرت انگیز تقاریر کے ذریعے جذبات بھڑکانے کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال۔

اس ضن میں علما کا اہم کردار ہے۔ چند ہفتے قبل فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ضمن میں ایک ضابطہ اخلاق سامنے لایا گیا تھا۔ ضرورت ہے کہ تمامِ مکاتبِ فکر کے علما اس پر بحث کریں تاکہ اتفاقِ رائے سے اسے لاگو کیا جاسکے۔

سب سےاہم بات یہ کہ نفرت انگیز تقاریر خواہ کسی بھی فرقے یا مذہب کی طرف سے کی جائیں، ان سے اظہار لاتعلقی کے ساتھ اس پر عدم برداشت صفر درجہ ہونی چاہیے۔

سینئر علمائے کرام کو یہ بات یقینی بنانا چاہیے کہ مساجد شرانگیز اور نفرت پر مبنی تقاریر کے عمل میں ملوث نہ ہوں اور اگر کہیں کوئی اس طرح کسی کو اُکسائے تو ریاست کو اُس کے خلاف فوری طور پر قانون کے مطابق کارروائی کرنی چاہیے۔

عسکریت پسندوں کو حاصل اس طرح کی گنجائشوں کو ختم کردیا جائے تو پھر شاید پاکستان کے، مختلف عقائد و مذاہب کو ماننے والے شہریوں کو، عقائد پر بنا رکاوٹ عمل کرنے کی آزادی میسر آسکتی ہے۔

انگریزی میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں