ارکان کے اثاثے

28 دسمبر 2013
وزیر اعظم پاکستان،  محمد نواز شریف، فائل فوٹو۔۔۔۔
وزیر اعظم پاکستان، محمد نواز شریف، فائل فوٹو۔۔۔۔
اگر کسی رکنِ پارلیمنٹ نے اپنے گوشوارے میں اثاثوں سے متعلق غلط بیانی سے کام لیا اور اپنی آمدنی سے درکار حصہ ادا نہیں کیا یا اس نے انکم ٹیکس گوشوارہ جمع نہیں کیا تو ایف بی آر کو اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ فائل فوٹو۔۔۔۔
اگر کسی رکنِ پارلیمنٹ نے اپنے گوشوارے میں اثاثوں سے متعلق غلط بیانی سے کام لیا اور اپنی آمدنی سے درکار حصہ ادا نہیں کیا یا اس نے انکم ٹیکس گوشوارہ جمع نہیں کیا تو ایف بی آر کو اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ فائل فوٹو۔۔۔۔
پارلیمینٹرین ہی نہیں، وزیرِ اعظم سمیت تمام مقدس گائیوں کے اثاثوں کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔ فائل فوٹو۔۔۔۔
پارلیمینٹرین ہی نہیں، وزیرِ اعظم سمیت تمام مقدس گائیوں کے اثاثوں کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔ فائل فوٹو۔۔۔۔

اور جیسا کہ ماضی میں بھی ہوتا رہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ارکانِ پارلیمنٹ کے اثاثوں، آمدنی اور ٹیکس گوشواروں کی جاری کردہ تفصیلات اخبارات کی شہ سرخیوں اور میڈیا کی اُس چٹ پٹی بحث کا موضوع بنتے رہے، جنہیں وہ صارفین کی تشنگی مٹانے کی خاطر، ٹکڑوں کی صورت میں اُن کی طرف اچھالتے ہیں۔

معنیٰ تو یہ ہیں کہ اس طرح کے 'انکشافات' کی گہرائی سے چھان کی جائے لیکن گذشتہ کئی برسوں سے یہی دیکھنے میں آرہا ہے کہ تفصیلات سامنے آتے ہی گرما گرم مباحثوں کا بگل بج اٹھتا ہے۔ دولت، اور بعض صورتوں میں اس کے نہ ہونے پر بھی، معاملہ اتنا چٹ پٹ بنادیا جاتا ہے کہ ٹی وی کے سامنے بیٹھنا دلچسپ لگتا ہے۔

یہ فطری ہے کہ 'مشتعل' سیاستدانوں کو اینکرز اور تجزیہ کاروں کے سامنے ڈال کر، عوام کی طرف سے غیر قانونی اثاثوں اور ٹیکس چوری کے عائد الزامات پر، اُن سے سختی کے ساتھ باز پُرس شروع کردی جائے۔

مثال کے طور پر،ایک واقعے میں ایک رکنِ پارلیمنٹ نے میزبان اور اس کے ایمپلائر کو بھی بلواسطہ طور پر اسی طرح کے مالیاتی جُرم کا مرتکب ٹھہرایا۔ ایک دوسرے سیاستدان نے صورتِ حال کوسنبھالنے کے لیے یہ تجویز کرتے ہوئے مداخلت کی کہ معاملے کو تحقیقات کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو پر چھوڑ دیا جائے۔

اگر کسی رکنِ پارلیمنٹ نے اپنے گوشوارے میں اثاثوں سے متعلق غلط بیانی سے کام لیا اور اپنی آمدنی سے درکار حصہ ادا نہیں کیا یا اس نے انکم ٹیکس گوشوارہ جمع نہیں کیا تو ایف بی آر کو اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔

بے شک، رسمی طور پر موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے، عوامی نمائندوں کے اثاثوں اور آمدنی ظاہر کرنے کی اس مشق کو بامعنیٰ بنانے کا مناسب طریقہ یہی ہے لیکن ایف بی آر میں بھی صرف چند ہی ایسے ہوں گے جو ارکانِ پارلیمنٹ کے ظاہر کردہ اثاثوں کی تحقیقات کا حوصلہ رکھ سکتے ہوں۔

اگرچہ ارکان پارلیمنٹ کے داخل کردہ گوشواروں کا تقابل کریں تو چند ایسے ارکان بھی ہیں کہ جن کے لائف اسٹائل اور ظاہر کردہ آمدنی میں نمایاں فرق نظر آتا ہے لیکن پھر بھی ایسا کون ہوگا جو اپنی نوکری کی قیمت پر بھڑوں کے چھتّے میں ہاتھ ڈالے؟

یا کوئی کیوں یہ نشان دہی کرے ایک رکنِ پارلیمنٹ کے، اسلام آباد کے ایف سیون سیکٹر میں واقع گھر کی مالیت ایک ارب روپے جبکہ ایک دوسرے رکنِ پارلیمنٹ نے اسی علاقے میں واقع گھر کی مالیت سولہ لاکھ روپے ظاہر کی ہے؟

پارلیمنٹ میں صرف ایک ہی 'چھ ارب پتی' ہے اور وہ ہیں خود وزیرِ اعظم جبکہ معمہ یہ بھی ہے کہ اسی ایوان میں ایسے ارکان بھی موجود ہیں کہ جن کے پاس کار تک نہیں۔

خوش قسمتی دیکھیے کہ جب وزیرِ اعظم نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل کیے تو ان کے ظاہر کردہ اثاثوں کی مالیت تھی دو سو اکسٹھ اعشاریہ چھ ملین روپے، جس میں اب ایک اعشاریہ سات ارب روپے اضافہ ہوا۔ اگر تقدیر کی اس یاوری پر تحقیقات نہیں تو کم ازکم وضاحت توضرور طلب کی جاسکتی ہے۔

ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ارکانِ پارلیمنٹ کے گوشواروں میں اثاثوں کی تفصیلات غلط بیان کی گئی ہیں تاہم حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے نام کلیئر کرانے کے لیے، بلاشبہ ان مالیاتی تفصیلات کی تحقیقات کے لیے ایف بی آر کو ہدایت کرے۔

مستقبل میں ٹیکس چوری روکنے کی خاطر حکومت کو چاہیے کہ وہ دیگر مقدس گائیوں، جنرلز، ججز، وکلاء، صحافیوں، اور کاروباری شخصیات وغیرہ کے، مالیاتی اثاثوں اور گوشواروں کی تحقیقات کا بھی حکم دے۔

انگریزی میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں