ڈرون چیلنج

30 دسمبر 2013
وزیراعظم کے بے عمل بیان اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا ڈبل گیم، کیا حملے تقدیر کا لکھا ہیں؟ 
فائل فوٹو۔۔۔۔
وزیراعظم کے بے عمل بیان اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا ڈبل گیم، کیا حملے تقدیر کا لکھا ہیں؟ فائل فوٹو۔۔۔۔

ڈرون ایک مسئلہ ہے جو پاکستان کو عالمی تنہائی کی جانب کھینچے چلے جارہا ہے۔ یہ ماخذ تھا سنیچر کو وزیرِ اعظم نواز شریف کی خبرداری کا جو صرف ایک روز پہلے کی اس بازگشت میں سنائی دی، جس میں دفتر خارجہ نے بجا طور تجزیے کی بنیاد پر کہا تھا کہ یہاں ایک مسئلے کے سوا عالمی تعلقات کے اور بھی معاملات درپیش ہیں۔

اس مسئلے کے دو پہلو ہیں: جب حکومت منطقی طور پر بولتی ہے تو یہ ہیجانی انداز میں بولتی ہے۔ وہاں ڈرون مسئلے کے پائیدار حل کی خاطر بہت کم کوششیں نظر آتی ہیں بلکہ وہ اس سے آگے بڑھ کر ڈرون حملوں اور اس پر سیاسی گرمی، دونوں کو تقدیر کا لکھا سمجھتے ہوئے، تسلیم کرتی محسوس ہوتی ہے۔

خاص طورپر جناب شریف کو درست بات کہنے کا فن آتا ہے لیکن اس کے بعد، جو کہا اُس کی پشت پناہی کے لیے بہت کم اقدام کرتے نظر آتے ہیں۔ البتہ الفاظ سے اگر فرق پڑتا ہے تو اُس مقام سے جہاں پر وہ کہے گئے ہوں۔ دفترِ خاجہ کی نئی عمارت کے افتتاح پر، چند الفاظ کہ پاکستان کو تنہائی کی طرف دھکیل رہے ہیں، نہ یہ کہنا کافی تھا اور نہ ہی کہنے کا مقام درست تھا۔

ڈرون کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس عمل میں شامل تمام فریقوں کے مابین نہ تو مفاہمت اور نہ ہی اس پیچیدہ تر معاملے کی بڑی تصویر سے متعلق زیرِ غور تحفظات کا اظہار ہوتا ہے۔

ایک بار نائین الیون ہوجانے کے بعد اب سی آئی اے اس نوع کے کسی بھی حملوں کی روک تھام میں، اس حد تک پاگل پن کا شکار ہے کہ وہ ان حملوں کے سیاسی اور سفارتی اثرات پر غور کیے بغیر، آسمان پر پرواز کرتے ہوئے زمین پہ قتل کیے چلی جارہی ہے۔

وائٹ ہاؤس، بش دور کی تنگ نظر اور بدگمانی پر مبنی پالیسوں کے تسلسل پر سی آئی کی پشت پناہی کررہا ہے، ایسا شاید اس لیے بھی کہ کوئی بھی امریکی صدر ایسارہنما بننا نہیں چاہتا جس کے دور میں دوسرا نائین الیون ہو اور دوسرا آپشن یہ کہ خود فاٹا اپنی حیثیت میں بہت کم قابلِ قبول ہے۔

یہاں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں یہ پہلے بھی تھا اور شاید اب بھی ہے کہ وہ مختلف حالتوں میں ایک اور ڈبل گیم کھیلنے کی خاطر مواد کی تلاش میں ہیں، یہی ان کے لیے نجی حمایت اور عوامی تنقید کا سبب بھی ہے۔ ڈرون حملوں پر امریکی مطالبات اور داخلی مخالفت کے درمیان حائل خلیج پاٹنے کے لیے مرکزی حکومت کسی پالیسی کی پیشکش سے قاصر نظر آتی ہے۔

اور پھر حالیہ دنوں میں شاید اسی سے ڈرون معاملے پر، پی ٹی آئی اور دائیں بازو کی اُن متفرق جماعتوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملا جن کے نزدیک پاکستان کو عسکریت پسندی کے سوا، ہر قسم کے مسائل و خطرات کا سامنا ہے۔

جس طرح دیگر فریقین کے مجرمانہ فعل اور بے عملی پریشان کُن ہے، اسی طرح افغانستان میں موجود عالمی فوجی اتحادیوں کے ساتھ، امریکا کے فاٹا پر کیے جانے والے ڈرون حملوں پر پی ٹی آئی کا نقطہ نظر بھی بالخصوص پریشان کُن ہے۔

یہ صرف امریکی فوجیوں کے لیے سپلائی کا وہ راستہ نہیں، جس پر پاکستان میں پی ٹی آئی رکاوٹیں کھڑی کررہی ہے، یہ وہ راستہ بھی ہے جسے افغانستان میں موجود دیگر ممالک کی افواج بھی وہاں سے نکلنے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہیں۔

دراصل، انہیں زیادہ قابلِ برداشت اورسنجیدہ سوچ اختیار کرنا چاہیے تھی۔ پی ٹی آئی یہ تلاش کرسکتی ہے کہ بہت سے دوسرے ممالک بھی ڈرون حملون پر بے چینی محسوس کرنے لگے ہیں اور وہ بھی کھیل کے لیے نئے قواعد چاہتے ہیں۔

انگریزی میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں