بلاول ہاؤس سیکیورٹی

02 جنوری 2014
بلاول ہاؤس کو فراہم کی جانے والی سیکیورٹی میں، علاقہ مکینوں اور شہریوں کے واسطے آزادانہ آمدورفت کے ساتھ، باہم توازن قائم ہونا چاہیے پی پی آئی فوٹو۔۔۔
بلاول ہاؤس کو فراہم کی جانے والی سیکیورٹی میں، علاقہ مکینوں اور شہریوں کے واسطے آزادانہ آمدورفت کے ساتھ، باہم توازن قائم ہونا چاہیے پی پی آئی فوٹو۔۔۔

کراچی میں سابق صدر آصف علی زرداری کی رہائش گاہ بلاول ہاؤس کے قریب، اطراف سے رکاوٹیں دور کرنے کے لیے عمران خان کے حامیوں کے احتجاج پر اتوار کو، پی پی پی اور پی ٹی آئی کارکنوں کے گھتم گھتا ہونے کے بدترین مناظر دیکھے گئے۔

گڑھی خدا بخش میں ستائیس دسمبر کو عمران خان کے بارے میں بلاول بھٹو زرداری کے سخت تبصرے کے بعد، دونوں جماعتوں کے درمیان بڑھتے تناؤ کی وجہ سے اس تصادم کی توقع تھی۔

اس تقریر کے فوراً بعد ہی پی ٹی آئی کو بلاول ہاؤس کی حفاظت کے نقطہ نظر سے، سامنے والی سڑک پر تجاوزات کے خلاف احتجاج کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔ اگر دونوں جماعتوں کے سینئر رہنما احتجاج کے دوران اپنے اپنے حامیوں کو قابو میں رکھنے کی خاطر مداخلت کرتے تو اس پُرتشدد تصادم کو ٹالا بھی جاسکتا تھا۔

یہ بات درست ہے کہ جناب زرداری اور ان کے اہلِ خانہ کی زندگیوں کو واضح طور پر شدید خطرات لاحق ہیں، خاص طور عسکریت پسندی کے خلاف سابق صدر اوراوران کے بیٹے کی شدید تنقید کے باعث یہ خطرات کہیں زیادہ بڑھ چکے۔

ایسے میں کہ جب خود بینظیر بھٹو دہشتگرد حملے کی نذر ہوچکیں تو اس کا سبق یہی ہے کہ خطرات کو نہایت سنجیدگی سے لیا جائے تاہم سوال بدستور موجود ہے: کیا بلاول ہاؤس اور اس کے مکینوں کو مناسب سیکیورٹی فراہم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عوامی املاک و مقامات پر تجاوزات قائم کرکے، علاقہ مکینوں اور شہریوں کے لیے دشواریاں پیدا کی جائیں؟

جب سے آصف علی زرداری ایوانِ صدر میں داخل ہوئے تھے، تب سے ہی بلاول ہاؤس کے اطراف کے رہائشی علاقوں کے مکینوں اور تجارتی علاقوں میں کام کرنے والوں کو، گھروں اور کام کے مقامات پر آنے جانے میں دشواریوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

دورِ صدارت میں ان کی بھاری سیکیورٹی کا شاید جواز تھا لیکن اب وہ اپنے عہدے پر نہ رہے تو کیا اب بھی انہیں، اُسی معیار کے خطرات کا سامنا ہے؟

بلاول ہاؤس کو فراہم کی جانے والی سیکیورٹی میں، علاقہ مکینوں اور شہریوں کے واسطے آزادانہ آمدورفت کے ساتھ، باہم توازن قائم ہونا چاہیے۔

اگرچہ پی ٹی آئی کا احتجاج سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی خاطر تھا تاہم اس کے سبب، وہاں اہم شخصیات کی موجودگی کے باعث تمام سڑکوں کی بندش سے، صرف علاقہ مکینوں کے لیے ہی نہیں تمام علاقوں سے آنے جانے والوں کو پیش آنے والی زحمت واقعی ایک حقیقت ہے۔

لہٰذا، پی پی پی کو چاہیے کہ بلاول ہاؤس کے اطراف کی سڑکوں کو کھول دے بلکہ ریاست کوبھی چاہیے کہ پارٹی قائدین کی سلامتی یقینی بنانے کی خاطر، بلاول ہاؤس کی مناسب سیکیورٹی کے بدستور انتظامات کرے۔

دیگر علاقوں میں بھی، خاردار باڑ لگا کر، شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت میں رکاوٹیں ڈالنے کی ہرگز اجات نہیں ہونی چاہیے۔

انگریزی میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں