ججز کی تقرری میں اراکین پارلیمنٹ کا کردار مضبوط بنانے کا ارادہ

اپ ڈیٹ 04 جنوری 2014
یہ معاملہ سینیٹ میں اس وقت گونج اُٹھا تھا، جب ایوانِ بالا میں سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے ایک تحریک اگست میں پیش کی گئی، جس میں انہوں نے ججز کی تقرری کے عمل اور ان کی نامزدگی کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کے غیرمؤثر ہونے پر اپنی شکایات اور تحفظات بیان کرتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ —۔ فائل فوٹو
یہ معاملہ سینیٹ میں اس وقت گونج اُٹھا تھا، جب ایوانِ بالا میں سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے ایک تحریک اگست میں پیش کی گئی، جس میں انہوں نے ججز کی تقرری کے عمل اور ان کی نامزدگی کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کے غیرمؤثر ہونے پر اپنی شکایات اور تحفظات بیان کرتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ —۔ فائل فوٹو

اسلام آباد: ایک تصور یہ ہے کہ اعلٰی عدالتوں کے ججوں کی تقرری کے عمل میں اراکینِ پارلیمنٹ کا اختیار اب ایک رسمی اور بے کار سی چیز بن کر رہ گیا ہے، وہ آئین کے آرٹیکل 175-A کے تحت تقرری کے اس عمل میں بہتری پیدا کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اور اس عمل میں اراکین پارلیمنٹ کے کردار کو مضبوط بنانے کے لیے آٹھ اراکین پر مشتمل دو جماعتی پارلیمانی کمیٹی ججوں کی تقرری کا فیصلہ کرنے کے لیے اقتدار میں شریک تمام فریقوں کا نکتہ نظر حاصل کرے گی۔

اس مقصد کے لیے قانونی برادری کی نمائندگی کرنے والے مختلف سطح کے اہم اداروں کو بھی دعوت دی جائے گی۔

حکمران جماعت کے سینیٹر رفیق راجوانہ نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”پہلے قدم کے طور پر ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان بار کونسل جو وکلاء برادری کے معاملات کی نگرانی کرنے والا سرپرست ادارہ ہے، اس کے وائس چیئرمین قلبِ حسن اور قانونی اصلاحات کمیٹی کی کونسل کے نمائندے اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نومنتخب صدرکامران مرتضٰی کو اس کمیٹی کو اس عمل کے حوالے سے اپنے نکتہ نظر کی وضاحت پیش کرنے کی دعوت دی ہے۔“

سینیٹر رفیق راجوانہ نے اسلام آباد میں جمعہ تین دسمبر کے روز اس پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی، جس کی صدارت رکن قومی اسمبلی محمد علی خان لغاری نے کی تھی، اور سینیٹ میں قائدِ ایوان راجہ ظفرالحق ، سابق وزیرِ قانون فاروق ایچ نائیک، حاجی عدیل، محمد بشیر ورک، نوید قمر اور شاہ محمود قریشی نے بھی شرکت کی۔

اس پارلیمانی کمیٹی کی ایک ذیلی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے، جو فاروق ایچ نائیک، رفیق راجوانہ اور محمد بشیر ورک پر مشتمل ہے، یہ دس دن کے بعد میٹنگ کرسکتے ہیں۔

اگلے مرحلے میں یہ پارلیمانی کمیٹی دیگر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز کے صدور اور معروف قانون دانوں سے بھی فیڈبیک اور رائے حاصل کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ ججوں کی تقرری کے عمل کو مضبوط بنانے کی خاطر ایک اور آئینی ترمیم لانے کے لیے قابل عمل قوانین وضع کرنے میں مدد مل سکے۔

ججوں کی تقرری کا عمل اس وقت متنازعہ حیثیت اختیار کرگیا تھا، جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جیوڈیشل کمیشن کے سربراہ بن گئے تھے، اور ساتھ ہی یہ تاثر بڑھتاجارہا تھا کہ تمام اختیارات طاقتور جیوڈیشل کمیشن کے پاس ہیں اور پارلیمانی کمیٹی کی حیثیت بے کار محض ہوکر رہ گئی ہے، خاص طور پر ججوں کی ترقی کے لیے نامزدگیاں صرف چیف جسٹس ہی کرسکتے تھے۔

اس کے تحت پاکستان بار کونسل جیوڈیشل کمیشن کے قوانین میں ترمیم کی تجویز بھی دے سکتی ہے، جس کے تحت 2010ء سے تاحال جیوڈیشل کمیشن کی اس معاملے پر گرفت موجود ہے۔

اعلٰی عدالتوں کے ججز کی تقرری کے لیے جیوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کے یہ دونوں ادارے اٹھارویں اور انیسویں ترامیم کے ذریعے آرٹیکل 175-A میں ترمیم سے تخلیق کیے گئے تھے۔

لیکن کچھ قانونی مبصرین کے مطابق مئی 2011ء کے دوران منیر حسین بھٹی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے توازن کو بگاڑ کر جیوڈیشل کمیشن کے حق کردیا۔

عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ ججز کی ترقی کے سلسلے میں جیوڈیشل کمیشن کے فیصلے کو مسترد کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی کو استدلال پیش کرنا چاہئیے، دوسری صورت میں اس کے مسترد کرنے کو بے مقصد اور صوابدیدی سمجھا جائے گا۔

پارلیمانی کمیٹی اور جیوڈیشل کمیشن کے درمیان اختیارات کے سلسلے میں تنازعہ فروری 2011ء کے پہلے ہفتے میں اس وقت شروع ہوا، جب پارلیمانی کمیٹی کے اس وقت کے سربراہ پیپلزپارٹی کے نیّر حسین بخاری نے لاہور ہائی کورٹ کے چار ایڈیشنل ججز کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع دینے اور بعد میں یکم مارچ کو سندھ ہائی کورٹ کے دو ججوں کی نامزدگی کے سلسلے میں جیوڈیشل کمیشن کی سفارشات کو مسترد کردیا تھا۔

اسی طرح حال ہی میں یہ معاملہ سینیٹ میں اس وقت گونج اُٹھا تھا، جب ایوانِ بالا میں سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے ایک تحریک اگست میں پیش کی گئی، جس میں انہوں نے ججز کی تقرری کے عمل اور ان کی نامزدگی کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کے غیرمؤثر ہونے پر اپنی شکایات اور تحفظات بیان کرتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا تھا۔

سینیٹر رفیق راجوانہ نے کہا کہ ”پارلیمانی کمیٹی کے بارے میں سلسلہ وار اجلاس منعقد کرنے کا ارادہ ہے، جس کوپارلیمانی کمیٹی اور جیوڈیشل کمیشن کے درمیان تصادم نہ سمجھا جائے یا جیوڈیشل کمیشن کے اختیارات کو مختصر کرنے کا منصوبہ۔“

انہوں نے کہا کہ جانچ پڑتال کے عمل کو بامعنی بنانا چاہئے اور یہ شرط عائد ہونی چاہئے کہ اگر پارلیمانی کمیٹی چودہ دنوں کے اندر تقرریوں پر اپنی رائے دینے میں ناکام رہے تو جیوڈیشل کمیشن کی سفارشات کو حتمی تصور کیا جائے ۔ اس طرح سے عدلیہ کی آزادی کو حقیقی معنوں میں یقینی بنائے جائے گا۔

رفیق راجوانہ نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی اس بات پر غور کررہی ہے کہ دیگر ممالک میں ججوں کی تقرری کے عمل کی مکمل تحقیق کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا پاکستان کے ساتھ مواز نہ کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں