بلاول 2018ء کا انتظار کریں یا قومی اسمبلی میں بلاتاخیر قدم رکھیں؟

اپ ڈیٹ 06 جنوری 2014
گزشتہ ستمبر میں جب بلاول  پچیس برس کی عمر کو پہنچنے کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہوگئے تھے، تو رپورٹس کے مطابق انہوں نے پارلیمنٹ میں پہنچنے کے لیے اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ —. فائل فوٹو اے پی
گزشتہ ستمبر میں جب بلاول پچیس برس کی عمر کو پہنچنے کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہوگئے تھے، تو رپورٹس کے مطابق انہوں نے پارلیمنٹ میں پہنچنے کے لیے اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ —. فائل فوٹو اے پی

اسلام آباد: پیپلزپارٹی کے سرپرستِ اعلٰی کے پارلیمانی سیاست میں قدم رکھنے کے وقت سے متعلق پیپلزپارٹی کی قیادت میں بحث جاری ہے، کچھ کا خیال ہے کہ انہیں اگلے عام انتخابات کا انتظار کیے بغیر ضمنی انتخاب میں حصہ لینا چاہئیے۔

گزشتہ ستمبر میں جب بلاول پچیس برس کی عمر کو پہنچنے کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہوگئے تھے، تو رپورٹس کے مطابق انہوں نے پارلیمنٹ میں پہنچنے کے لیے اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔

پیپلزپارٹی کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پیپلزپارٹی میں ایک گروپ جس کی قیادت بلاول کے والد اور سابق صدر آصف علی زرداری کررہے ہیں، کا یقین ہے کہ انتخابی سیاست میں ان کا قدم رکھنا فی الحال قبل از وقت ہوگا۔

لاڑکانہ کے حلقہ این اے-204 سے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی ایاز سومرو سے جب مستعفی ہونے کے لیے کہا گیا تو یہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد میڈیا نے بلاول کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع کردی تھیں کہ وہ قومی اسمبلی کے رکن بننے جارہے ہیں۔

پیپلزپارٹی نے ان رپورٹوں کو باضابطہ طور پر مسترد کردیا،لیکن ایاز سومرو کے قریبی ذرائع نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پہلے ہی اپنا استعفٰے بلاول بھٹو زرداری کے حوالے کردیا ہے۔

پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد کے پس پردہ انٹرویوز سےمختلف نکتہ نظر اور دلائل ظاہر ہوتے ہیں، جن میں بلاول کے قومی اسمبلی میں بحیثیت قائدِ حزبِ اختلاف قدم رکھنے کی حمایت اور مخالفت دونوں موجود ہے۔

جو بلاول کے فوری طور پر پارلیمنٹ میں قدم رکھنے کی حمایت کرتے ہیں، ان کا یقین ہے کہ ان کا انتخاب پارٹی کی بحالی میں مدد کرے گا، اور وہ اس کے حزبِ اختلاف کے امیج کو بہتر بنانے کے قابل ہوجائیں گے۔

وہ دلیل دیتے ہیں کہ اگرچہ پیپلزپارٹی ایک پارلیمنٹ میں اپنی نشستوں کی تعداد کے لحاظ سے حزب اختلاف کا ایک بڑا گروپ ہے، لیکن عوام عمران خان کی تحریک انصاف کو حقیقی معنوں میں ایک اپوزیشن جماعت سمجھتی ہے۔

دوسری جانب پارٹی رہنماؤں کی بڑی تعداد پر مشتمل ایک گروپ جس میں سینیئر پارلیمنٹیرین شامل ہیں، تجویز پیش کرتا ہے کہ بلاول کو 2018ء کے دوران اگلے عام انتخابات میں پارٹی کیا قیادت کرنی چاہئیے اور تب تک انہیں پارٹی کی تنظیم نو پر توجہ دینی چاہئیے، اس پارٹی نے گزشتہ سال مئی کے عام انتخابات میں بری کارکردگی پیش کی تھی۔ؕ

ان کو یقین ہے کہ پارٹی کے نوجوان چیئرمین کا شعور ابھی اس قدر پختہ نہیں ہوا ہے کہ وہ اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کا مؤثر کردار ادا کرسکیں، جہاں مسلم لیگ نون کو بھاری اکثریت حاصل ہے۔

پنجاب سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے ایک رہنما نے کہا کہ ”بلاول شاہین صفت رویہ رکھتے ہیں، جبکہ اسمبلی میں سمجھوتے کے ساتھ چلنا پڑتا ہے، اور اس صورت میں کہ جب ہم حزبِ اختلاف کی نشستوں پر بیٹھے ہوں۔“

انہوں نے کہا کہ پارٹی قیادت کا اس بات پر اتفاق رائے تھا کہ موجودہ جمہوری سیٹ اپ خلل پیدا نہیں جانا چاہئیے، اور مسلم لیگ نون کی حکومت کو اپنی پانچ سالہ مدت اقتدار پوری کرنے کی اجازت دینی چاہئے، جبکہ بلاول کے لیے سمجھوتہ کرنا مشکل ہوگا، جیسا کہ اپوزیشن جماعتوں کو بعض معاملات پر کرنا پڑتا ہے۔

بلاول بھٹو کے نئے میڈیا ایڈوائزر فواد چوہدری، جنہیں حال ہی میں مقرر کیا گیا ہے، کہتے ہیں کہ ”یقینی طور پر یہ بحث پارٹی کے اندر اُس وقت تک جاری رہے گی، جب تک کہ بلاول انتخاب میں حصہ نہیں لے لیتے، اور موافق اور مخالف دلائل مختلف سطح پر دیے جاتے رہیں گے۔“

انہوں نے کہا کہ ”اس وقت میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے، اور جب ہم اس مرحلے سے گزریں گے، تو سب کچھ سامنے آجائے گا۔“

انہوں نے اس طرح کی اطلاعات کو رد کردیا کہ پارٹی کی قیادت نے ایاز سومرو سے کہا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کی نشست اس لیے چھوڑ دیں کہ بلاول ضمنی انتخاب میں حصہ لے سکیں۔

اُدھر زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے بھی بلاول کی پارلیمنٹ میں فوری آمد کے امکانات کو مسترد کردیا۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی میں یہ اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ بلاول کو 2018ء سے پہلے کسی بھی ضمنی انتخاب میں حصہ نہیں لینا چاہئیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں