شجاعت کی پیشکش

09 جنوری 2014
پیر کو سینٹ کے فلور پر خطاب کرتے ہوئے چوہدری شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ ریٹائرڈ جنرل کے علاوہ اور بھی جانی پہچانی شخصیات ہیں جن پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے اور یہ عمل صرف سن دو ہزار سات میں ایمرجنسی کے نفاذ سے شروع نہ ہو۔ فائل فوٹو۔۔۔
پیر کو سینٹ کے فلور پر خطاب کرتے ہوئے چوہدری شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ ریٹائرڈ جنرل کے علاوہ اور بھی جانی پہچانی شخصیات ہیں جن پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے اور یہ عمل صرف سن دو ہزار سات میں ایمرجنسی کے نفاذ سے شروع نہ ہو۔ فائل فوٹو۔۔۔

سن دو ہزار سات کی ایمرجنسی کے نفاذ میں جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دینے پر، مسلم لیگ ۔ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے خود کو مقدمے کے لیے پیش کرکے، نہ صرف بہادری کا مظاہرہ کیا بلکہ آج کل میڈیا پر چھائے سنگین غداری ڈرامے سے جُڑی چند ناقابلِ تردید سچائیوں کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی ہے۔

پیر کو سینٹ کے فلور پر خطاب کرتے ہوئے چوہدری شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ ریٹائرڈ جنرل کے علاوہ اور بھی جانی پہچانی شخصیات ہیں جن پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے اور یہ عمل صرف سن دو ہزار سات میں ایمرجنسی کے نفاذ سے شروع نہ ہو۔

اُس وقت کی حکمراں جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے چوہدری شجاعت حسین جانتے ہیں کہ تین نومبر، سن دو ہزار سات کو ایمرجنسی نافذ کرنے کے حکمنامہ پر جنرل مشرف کے دستخط کرنے سے قبل، اقتدار کی غلام گردشوں میں کیا تناؤ چل رہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ غداری کا مقدمہ ہے تو پھر اس کی سماعت بارہ اکتوبر، سن اُنیّس سو ننانوے کے اُس وقت سے شروع ہونی چاہیے جب مشرف فضا میں تھے اور یہاں ایک منتخب حکومت کا تختہ اُلٹا جارہا تھا۔

کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ایک بار پھر فوج کی طرف داری کرتے ہوئے، سپریم کورٹ نے نہ صرف فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کو درست قرار دیا بلکہ عدلیہ کے بڑوں نے آرمی چیف کو آئین میں ترامیم کا اختیار بھی سونپ دیا۔ یوں، عدالت نے فوج کو وہ اختیار دیا، جیسا کرنے کا اختیار خود اسے بھی بنیادی قوانین کے تحت حاصل نہیں۔

یہ منطقی بات ہے کہ بارہ اکتوبر سن اُنیّس سو ننانوے اور تین نومبر، سن دو ہزار سات ایک دوسرے میں پیوست ہیں، اگر اول الذکر نہ ہوتا تو پھر موخرالذکر واقعہ پیش آنے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

دونوں کے درمیان اس تعلق کے باوجود، اگر مقدمے کی سماعت اکتوبر ننانوے کی فوجی بغاوت کے بجائے صرف سن دو ہزار سات کی ایمرجنسی پر ہی ہونی ہے تو پھر جیسا کہ خود چوہدری شجاعت حسین کے الفاظ سے ظاہر ہے، ایمرجنسی کا نفاذ کسی ایک فرد کا فیصلہ نہیں تھا۔

اگرچہ اس وقت عدالت زیادہ مضبوطی سے ردِ عمل کا اظہار کررہی ہے تاہم سیاسی قیادت سے لے کر وزیرِ اعظم، آرمی کمانڈرز اور انٹیلی جنس چیفس تک، سن دو ہزار سات کے عمل کو سب کی حمایت حاصل تھی۔

چوہدری شجاعت حسین کے موقف کی حمایت جے یو آئی ۔ ف کے مولانا عبدالغفور حیدری نے بھی کی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ان سب لوگوں پر مقدمہ چلایا جائے جو سابق جنرل کے لیے کام کرتے رہے، حالانکہ ان میں وہ خود بھی شامل تھے۔

مسئلے پر سیاستدانوں کے نقطہ نظر کچھ بھی ہوسکتے ہیں لیکن یہ منصفانہ طور پرواضح ہے کہ سن دو ہزار سات میں ایمرجنسی کے نفاذ میں جن لوگوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا، آج اس لمحے میں، اُن تمام پر مقدمہ چلانے کی ضرورت ہے۔

جیسا کہ بطور سربراہِ مملکت اور آرمی چیف کے، پرویز مشرف کا کردار سب سے نمایاں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسروں کو بنا سزا کے نکل جانے کی اجازت دے دی جائے۔

انگریزی میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں