مشرف ملک چھوڑنے پر رضامند ہوچکے ہیں: امریکی میڈیا

09 جنوری 2014
امریکی میڈیا کے مطابق سابق فوجی سربراہ ریٹائرڈ جنرل مشرف کے ساتھیوں نے انہیں ملک چھوڑنے پر آمادہ کیا ہے، جو نواز شریف حکومت کے لیے دردِ سر بن چکے ہیں۔ —. فائل فوٹو
امریکی میڈیا کے مطابق سابق فوجی سربراہ ریٹائرڈ جنرل مشرف کے ساتھیوں نے انہیں ملک چھوڑنے پر آمادہ کیا ہے، جو نواز شریف حکومت کے لیے دردِ سر بن چکے ہیں۔ —. فائل فوٹو

واشنگٹن: امریکی میڈیا میں بدھ آٹھ جنوری کو پیش کی جانے والے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف جلد ہی بیرون ملک اپنے علاج معالجے کے لیے پاکستان سے چلے جائیں گے۔ لاس اینجلس ٹائمز اور سی بی ایس نیوز کی دو علیحدہ علیحدہ رپورٹوں میں سیکیورٹی اور انٹیلی جنس حکام کے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ان کے نمائندوں کو بتایا کہ جنرل مشرف اس ماہ کے آخر تک ملک چھوڑ کر جاسکتے ہیں۔ان رپورٹوں میں ذرائع کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔

ایک سیکیورٹی اہلکار نے لاس اینجلس ٹائمز کو اسلام آباد میں بتایا کہ ”یہ مشرف سمیت ہر ایک کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ ملک سے باہر چلیں جائیں۔“

سی بی ایس نیوز نے رپورٹ دی کہ مشرف کے خاندان کے افراد اور انٹیلی جنس حکام نے اس کے نمائندے کو بتایا کہ توقع ہے کہ سابق صدر جنوری کے آخر تک میڈیکل ٹریٹمنٹ کے لیے ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے۔

دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج نے مشرف کو ملک سے باہر جانے پر آمادہ کرنے کے ضمن میں اہم کردار ادا کیا ہے، اگرچہ وہ ملک میں قیام اور سیاست میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مئی کے انتخابات سے چند دن پہلے اس وقت کی نگران حکومت نے بھی مشرف کو ملک سے باہر بھیجنے کی کوشش کی تھی۔

ایک دوست ملک مشرف کو خلیج میں ایک مقام تک پہنچانے کے لیے رضامند تھا، جہاں سے وہ برطانیہ اپنی والدہ کے ہمراہ برطانیہ منتقل ہوجاتے۔ یہ منصوبہ اس لیے ناکام ہوگیا کہ مشرف نے ملک چھوڑنے سے انکار کردیا تھا۔

ایک ذریعہ کا کہنا ہے کہ ”بظاہر مشرف اب ملک چھوڑنے پر راضی ہوچکے ہیں،اور فوج میں ان کے سابقہ ساتھیوں (جو اب ریٹائرڈ جنرلزہیں) بھی ان کو اس بات پر آمادہ کرنے میں مدد کی ہے۔“

گزشتہ جمعرات کو اسلام آباد میں عدالت کے راستے میں سینے میں درد کی شکایت کے بعد مشرف کو راولپنڈی میں آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لے جایا گیا تھا۔

منگل کے روز ایک خصوصی عدالت جو سابق فوجی حکمران کے خلاف مقدمے کی سماعت کررہی ہے، نے کہا تھا کہ وہ ایک میڈیکل رپورٹ کی جانچ کرکے یہ فیصلہ کریں گے کہ مشرف کو عدالت میں حاضری سے چھوٹ دی جائے یا نہیں، جبکہ وہ مسلسل ہسپتال میں داخل ہیں۔

غداری کے الزامات جس کے تحت انہیں سزائے موت یا عمر قید دی جاسکتی ہے، اس واقعہ سے متعلق ہیں، جب 2007ء میں مشرف نے ریاست پر ایمرجنسی نافذ کردی تھی اور بہت سے ججز اور احتجاجیوں کو نظربند کردیا تھا۔

لاس اینجلس ٹائمز کا کہنا ہے کہ مشرف کی پاکستان میں موجودگی وزیراعظم نواز شریف کی چھ ماہ پرانی حکومت کے لیے ”سیاسی دردِ سر“ بن چکی ہے۔

اس اخبار نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ”یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ایک سابق سینیئر فوجی شخصیت کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی کوشش کی گئی ہے، نواز شریف حکومت طاقت و اقتدار کی مرکز فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کشیدگی بڑھ رہی ہے، جو اپنے ایک سابق رہنما کو سویلین عدالت میں تذلیل ہوتے دیکھ کر متذبذب ہے۔

”فوجی رہنماؤں کے بارے میں کہا گیا تھا کہ انہیں گزشتہ سال مشرف کی پاکستان واپسی کے فیصلے پر مایوسی ہوئی تھی۔“

لاس اینجلس ٹائمز نے حوالہ دیا کہ ایک شخص جو بہتر صحت کے لیے ہسپتال میں داخل ہوا ہے، میڈیا میں اس کی موجودگی سے قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں کہ جب مشرف کا ٹرائل شروع کیا گیا تو فوج ثابت قدم نہیں رہے گی۔

اس اخبار نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ”مبصرین کہتے ہیں کہ طبی وجوہات کے لیے مشرف کی روانگی کو ہی تیزی کے ساتھ ایک واحد حل دکھائی دے رہا ہے، جس سے حکومت اور فوج کے درمیان ان کی قسمت کے حوالے سے پیدا ہونے والا تعطل دور ہوسکتا ہے۔“

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں