چوہدری اسلم کی نمازِ جنازہ ادا کردی گئی

اپ ڈیٹ 10 جنوری 2014
چوہدری اسلم روایتی سفید لباس اور اپنی مخصوص گن کے ساتھ اپنی گاڑی سے باہر آرہے ہیں۔ فائل تصویر
چوہدری اسلم روایتی سفید لباس اور اپنی مخصوص گن کے ساتھ اپنی گاڑی سے باہر آرہے ہیں۔ فائل تصویر
واقعہ کراچی کے گنجان آباد علاقے حسن اسکوائر کے قریب پیش آیا جسکے دوران چوہدری اسلم کے علاوہ دو دیگر پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوئے—تصویر بشکریہ آصف محمود۔
واقعہ کراچی کے گنجان آباد علاقے حسن اسکوائر کے قریب پیش آیا جسکے دوران چوہدری اسلم کے علاوہ دو دیگر پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوئے—تصویر بشکریہ آصف محمود۔
دھماکے کے نتیجے میں ایس پی چوہدری اسلم کی گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی—تصویر بشکریہ آصف محمود۔
دھماکے کے نتیجے میں ایس پی چوہدری اسلم کی گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی—تصویر بشکریہ آصف محمود۔
جائے وقوع کا ایک منظر—تصویر بشکریہ آصف محمود۔
جائے وقوع کا ایک منظر—تصویر بشکریہ آصف محمود۔
حملے کے بعد پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور تحقیقات شروع کردیں—اے پی فوٹو۔
حملے کے بعد پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور تحقیقات شروع کردیں—اے پی فوٹو۔
دھماکہ اس وقت ہوا جب ان کی گاڑی لیاری ایکسپریس وے کی جانب جارہی تھی—اے پی فوٹو۔
دھماکہ اس وقت ہوا جب ان کی گاڑی لیاری ایکسپریس وے کی جانب جارہی تھی—اے پی فوٹو۔
جمعہ دس جنوری کو چوہدری اسلم کی نمازِ جنازہ ادا کرنے کے بعد قبرستان لے جانے کی تیاریاں ۔ اے ایف پی تصویر
جمعہ دس جنوری کو چوہدری اسلم کی نمازِ جنازہ ادا کرنے کے بعد قبرستان لے جانے کی تیاریاں ۔ اے ایف پی تصویر

کراچی: پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گزشتہ روز جمعرات کو ہونے والے ایک طاقتور دھماکے میں ہلاک ہونے والے ایس ایس پی سی آئی ڈی پولیس چوہدری محمد اسلم خان کی نمازِ جنازہ ادا کردی گئی ۔

چوہدری اسلم اور ان کے ساتھیوں کی نمازِ جنازہ میں اعلیٰ سول اور فوجی شخصیات شریک ہوئیں۔ اس موقع پر سندھ پولیس کے ایک دستے نے اپنے بہادر افسر کو سلامی پیش کی۔

ان کی تدفین کی موقع پر عزیز بھٹی تھانے کی حدود میں سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے۔ نمازِ جنازہ میں وزیرِ اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، کورکمانڈر کراچی لیفٹننٹ جنرل محمد اعجاز چوہدری، صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن اور پولیس کے دیگر اعلیٰ حکام موجود تھے۔ دوسری جانب پولیس نے اس واقعے کی تفصلی رپورٹ بھی تیار کرلی ہے جبکہ چوہدری اسلم کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی تیار کرلی گئی ہے۔

اس دھماکے میں چوہدری اسلم سمیت تین پولیس ہلکار ہلاک اور گیارہ زخمی ہوگئے تھے۔

شہر کے گنجان آباد علاقے حسن اسکوائر کے قریب لیاری بائی پاس پر ہوئے دھماکے میں ان کے ڈرائیور کامران اور ایک دیگر ساتھی بھی مارے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ اس واقعہ سے چند گھنٹوں قبل ہی چوہدری اسلم کی قیادت میں سی آئی ڈی کی ٹیم نے کارروائی کرتے ہوئے تین مشتبہ افراد کو ہلاک کیا، جو ان کی آخری کارروائی ثابت ہوئی۔

سینئر پولیس افسر اقبال محمود نے چوہدری اسلم کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ عیسیٰ نگری کے قریب تقریبا چار بج کر چالیس منٹ پر پیش آیا۔

انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ خودکش بمبار نے ایس پی سی آئی ڈی کے قافلے پر حملہ کیا جس میں وہ ہلاک ہوگئے۔

واقعے میں چوہدری اسلم کی گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی جبکہ پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور تفتیش شروع کردی۔

چوہدری اسلم نے سنگین جرائم میں ملوث کئی گروہوں اور مجرموں کا خاتمہ کیا۔ وہ لشکرِ جھنگوی اور تحریکِ طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی ) کی ہٹ لسٹ پر تھے۔

دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کی گونج دور دور تک سنی گئی۔ اس کی شدت سے آس پاس کی عمارتوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔

دھماکہ اس وقت ہوا جب چوہدری اسلم کی گاڑی لیاری ایکسپریس وے کی جانب جارہی تھی۔

واقعے کے بعد بم ڈسپوزل اسکواڈ اور دیگر تفتیشی اداروں نے جائے وقوعہ پر پہن کر تفتیش شروع کردی تھی۔

چوہدری اسلم کی ہلاکت کے بعد ملک کی اہم شخصیات نے افسوس اور تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

کراچی بم دھماکے میں چوہدری اسلم کی ہلاکت کی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سمیت صدر اور دیگر اعلیٰ حکام نے سخت الفاظ میں مذمت کی۔

وزیراعظم نے اپنے ایک پیغام نے کہا کہ چوہدری اسلم ایک بہادر پولیس افسر تھے اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں قوم کے عزائم کو کم نہیں کیا جاسکتا۔

طالبان نے ذمہ داری قبول کرلی۔

ادھر تحریک طالبان پاکستان مہمند ایجنسی نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔

گروپ کے ترجمان سجاد مہمند نے کہا کہ اسلم ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشنز میں ملوث تھے جسکی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے کہا 'چوہدری اسلم نے طالبان قیدیوں کو سی آئی ڈی سیل میں ہلاک کیا اور وہ ہماری ہٹ لسٹ پر تھے۔'

چوہدری اسلم کو ماضی میں پاکستانی طالبان کی جانب سے متعدد دھمکیاں موصول ہوچکی تھیں جبکہ ستمبر 2011ء میں ان کی رہائشگاہ کے باہر ایک زوردار دھماکہ ہوا تھا تاہم وہ اس میں محفوظ رہے تھے۔

حملے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا 'میں اپنی جان دے سکتا ہوں تاہم دہشت گردوں کے آگے کبھی نہیں جھکوں گا۔'

جمعرات کی صبح چوہدری اسلم نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک کارروائی کے دوران پاکستانی طالبان کے تین کارندوں کو ہلاک کردیا گیا ہے۔

کراچی میں ان دنوں جرائم پیشہ عناصر، ٹارگٹ کلرز، دہشت گردوں اور دیگر کے خلاف آپریشن جاری ہے۔

ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل کراچی شہر پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ ملکی جی ڈی پی کا 42 فیصد اسی شہر سے پیدا ہوتا ہے۔

تاہم کئی سالوں سے جاری اغوا برائے تاوان، قتل اور لسانی، فرقہ وارانہ اور سیاسی تشدد کی وجہ سے شہر کی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Amir Nawaz Khan Jan 09, 2014 06:43pm
اسلام میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی کوئی گنجائش نہیں اور طالبان،لشکر جھنگوی اور دوسری کالعدم جماعتیں اور القاعدہ دہشت گرد تنظیمیں ہولناک جرائم کے ذریعہ اسلام کے چہرے کو مسخ کررہی ہیں۔ طالبان دہشت گرد گولی کے زور پر اپنا سیاسی ایجنڈا پاکستان پر مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔ نیز دہشت گرد قومی وحدت کیلیے سب سے بڑاخطرہ ہیں۔اسلام امن،سلامتی،احترام انسانیت کامذہب ہے لیکن چندانتہاپسندعناصرکی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام کاامیج خراب ہورہا ہے۔ پاکستانی طالبان کو سمجھنا چاہیے کہ وہ خودکش حملے اور بم دہماکےکر کے غیرشرعی اور حرام فعل کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ مزاروں، مسجدوں، امام بارگاہوں ،جنازوں اور مارکیٹوں پر حملے اسلامی جہاد کے منافی ہیں اور مسلم حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔ انتہا پسند پاکستان کا امن تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عورتوں اور بچوں کا قتل اسلامی تعلیمات کے مطابق حالت جنگ میں بھی جائز نہ ہے۔ اور نہ ہی عرورتوں اور بچوں کو جنگ کا ایندھن بنایا جا سکتا ہے۔شدت پسندوں کا یہ غلط واہمہ ہے کہ وہ قتل و غارت گری اور افراتفری کے ذریعے اپنے سیاسی ایجنڈے کو پاکستانی عوام پر مسلط کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟
ibnedaood Jan 10, 2014 06:57pm
در اصل پاکستان میں ابهی تک ایسے لوگ خاصی تعداد میں موجود ہیں جو مذہب بارے جدید مغربی نظریہ کی بجائے روایتی نظریہ کے ماننے والے ہیں اور وہ مذہب کو دین یعنی مکمل نظام زندگی کے طور پر قبول کرتے ہیں اور قیام پاکستان کے وقت مسلم لیگ کی طرف سے سیاسی ضرورت کے تحت سطحی اور جذباتی مذہبی نعرے بازی کے دهوکے میں آنے والے ان سادہ لوحوں میں بعض تو اس قدر احمق ہیں کہ وہ بانی پاکستان کو بھی اپنے جیسا روایتی مسلمان سمجھتے ہیں میرے خیال میں ان لوگوں کو یاں تو ملک بدر کر دینا چاہئے یا پھر ان لوگوں کی تسلی کے لئے کچھ چهوٹے موٹے معاشرتی اسلامی اصولوں کو قانون کا حصہ بنا دینا چاہیے ملک کے حکمران طبقہ میں سیکولر ازم کے دفاع کیلئے انتہائی بےلچک رویہ اور کسی بھی سطح پر کسی بھی قسم کا کوئی اسلامی قانون قطعاً نہ بننے دینا اور ریاستی مشینری کو بے دریغ سیکولر اقدار کے دفاع میں جهونک دینا اس طبقے میں عسکریت پسندی کو ہوا دیتا ہے میری دیانت دارانہ رائے ہے کہ اگر حسبہ بل منظور کر لیا جاتا تو کم از کم پاکستان کے بندوبستی علاقوں میں ٹی ٹی پی وغیرہ کو کوئی حامی نہ ملتا