پشاور ہائی کورٹ میں یوٹیوب پر پابندی کے خلاف درخواست

10 جنوری 2014
ایک قانون دان  میاں محب اللہ کاکاخیل نے پشاور ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی اپنی درخواست میں کہا ہے کہ یوٹیوب پر پابندی سے معلومات حاصل کرنے کے انفرادی حق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ —. فائل فوٹو
ایک قانون دان میاں محب اللہ کاکاخیل نے پشاور ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی اپنی درخواست میں کہا ہے کہ یوٹیوب پر پابندی سے معلومات حاصل کرنے کے انفرادی حق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ —. فائل فوٹو

پشاور: پشاور ہائی کورٹ کے دو رُکنی بینچ نے جمعرات کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو ہدایت کی کہ وہ لاہور ہائی کورٹ میں سوشل میڈیا کی ویب سائٹ یوٹیوب پر 2012ء میں عائد کی گئی پابندی کے خلاف دائر کی گئی پٹیشن کی تمام دستاویزات اور تفصیلات فراہم کرے۔

جسٹس میاں فصیح الملک اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی عدالت کی مدد کے لیے پی ٹی اے سے بہت سے سوالات کیے۔

عدالتی بینچ نے کہا کہ کیا انٹرنیٹ اور ویب سائٹ کی نگرانی کے لیے کوئی قانون ہے، جبکہ یوٹیوب اور دیگر ویب سائٹس تک عوام پراکسی اور غیرقانونی طریقے سے رسائی حاصل کررہے ہیں، اور کیا انٹرنیٹ بینکنگ صارفین کو مختلف ویب سائٹ پر پابندی کی وجہ سے کسی قسم کے خطرات ہوسکتے ہیں۔

یہ عدالتی بینچ ایک قانون دان میاں محب اللہ کاکاخیل کی جانب سے جمع کرائی گئی رٹ پٹیشن کی سماعت کررہا ہے، جو یوٹیوب پر پابندی سے متعلق ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو معلومات سے محروم کردیا گیا ہے، چنانچہ اس کو ان بلاک کیا جانا چاہئیے۔ انہوں نے کہا کہ توہین آمیز اور قابل اعتراض مواد کو یوٹیوب سے خارج کرکےان پر پابندی لگائی جانی چاہئیے تاکہ عام لوگ اس کو مثبت سرگرمیوں کے لیے استعمال کرسکیں۔

درخواست گزار نے کہا کہ اس پابندی سے معلومات حاصل کرنے کے انفرادی حق کی خلاف ورزی کی گئی ہے، اور پاکستانیوں کو انہی ویب سائٹس تک محدود رہنے پر مجبور کیا گیا ہے جن کے لیے حکومت چاہتی ہے کہ وہ اس پر سرف کریں۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل محمد اقبال مہمند اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے اسسٹنٹ لیگل ڈائریکٹر جاوید اختر نے عدالتی بینچ کو بتایا کہ ہوبہو ایسی ہی ایک رٹ پٹیشن پہلے ہی لاہور ہائی کورٹ میں زیرِ التوا پڑی ہوئی ہے۔

بینچ نے کہا کہ یہ مناسب ہوگا کہ لاہور ہائی کورٹ کی کارروائی کے بارے میں تمام تفصیلات پی ٹی اے فراہم کرے، اور اس کے علاوہ وہ دستاویزات بھی فراہم کی جائیں جو لاہور ہائی کورٹ کے سامنے اس طرز کے کیس میں پیش کیے گئے تھے۔

درخواست گزار نے کہا کہ اس وقت کے وزیرداخلہ کی ہدایت پر وزارت داخلہ نے یوٹیوب پر پابندی عائد کی تھی، جب اس پر ایک توہین آمیز فلم ”انوسنس آف اسلام“ اپ لوڈ کی گئی تھی۔

پی ٹی اے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کی جانب سے چند ماہ پہلے جمع کرائے گئے تبصرے میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے ابتداء میں توہین آمیز فلم پر مبنی 2067 ویب سائٹس کو بلاک کیا تھا، لیکن بڑی تعداد میں اس فلم کی اپ لوڈنگ کی وجہ سے یوٹیوب کو سترہ ستمبر 2012ء کو مکمل طور پر بلاک کرنا پڑا۔

تبصرے (0) بند ہیں