واشنگٹن: امریکا کے سابق سیکریٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے تحریر کیا ہے کہ امریکا نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر چھاپہ مار کارروائی سے قبل پاکستان سے مشاورت کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا، اس لیے کہ اس کو خوف تھا کہ آئی ایس آئی ان کی حفاظت کررہی ہے۔

”ڈیوٹی: جنگ کے دوران ایک سیکریٹری کی یادداشتیں“ کے عنوان سے رابرٹ گیٹس اپنی نئی کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ 2009ء کے انتخابات میں امریکا نے افغان صدر حامد کرزئی کو شکست سے دوچار کرنے کی کوشش کی تھی۔

کرزئی کو گدّی سے محروم کرنے کے لیے پس پردہ جاری کوششوں کے مرکزی کردار اس وقت افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی انتظامیہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک اور کابل میں اس وقت کے امریکی سفیر کارل ایکن برے تھے۔

اس کتاب میں پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کی ایک مایوس کن تصویر پیش کی گئی ہے، اور ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ دونوں کیونکر ایک دوسرے پر کبھی اعتماد نہیں کرتے۔

رابرٹ گیٹس دلیل دیتے ہیں کہ امریکیوں کی توجہ دہشت گردوں سے لڑائی پر مرکوز ہے، جبکہ پاکستانی کسی بھی قیمت پر افغانستان میں اپنا اثروروسوخ قائم رکھنا چاہتے ہیں، اور یہی وہ وجہ ہے کہ وہ کبھی بھی طالبان کے ساتھ اپنے اتحاد کو توڑنا نہیں چاہتے۔

سابق امریکی سیکریٹری دفاع کا کہنا تھا کہ ”اگرچہ میں کانگریس کے سامنے ان کا دفاع کروں گا، اور ان تعلقات کو بدتر سطح سے نکالنے پر زور دوں گا، اور کراچی سے ہماری سپلائی لائن خطرے کی زد میں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ وہ کبھی بھی حقیقی اتحادی نہیں تھے۔“

ایبٹ آباد کی چھاپہ مار کارروائی:

رابرٹ گیٹس کہتے ہیں کہ جب وہ مئی 2011ء میں ایبٹ آباد میں واقع اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر چھاپہ مار کارروائی کی منصوبہ بندی کررہے تھے، اس وقت وہ فکرمند تھے کہ آئی ایس آئی کو القاعدہ کے سربراہ کے ٹھکانے کے بارے میں علم تھا۔

وہ لکھتے ہیں کہ ”میں فکرمند تھا کہ پاکستانی انٹر سروسز انٹیلی جنس جانتی تھی کہ اسامہ بن لادن کہاں ہیں، اور اس کمپاؤنڈ کے اردگرد کوئی سیکیورٹی کا اشارہ لگا رکھا ہو، لیکن ہمیں اس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہوسکا تھا، جب ہمیں معلوم ہوسکا، کم ازکم آئی ایس آئی نے اس کمپاؤنڈ پر نگرانی میں اضافہ کردیا ہو۔“

بدترین صورتحال یہ ہوسکتی تھی کہ جب پاکستانی اپنے فوجیوں کی بڑی تعداد تیزی کے ساتھ وہاں لے آتی اور ہماری ٹیم کو باہر نکلنے سے روک دیتی اور انہیں قیدی بنالیا جاتا۔

اس آپریشن کے آفیسر انچارج وائس ایڈمرل ولیم میک راون نے انہیں بتایا کہ اگر ان اس آپریشن کے دوران پاکستانی فوج سے سامنا ہوجائے تو امریکی کمانڈوز ہتھیار ڈال دیں گے اور ایک سفارتی نکاس کا انتظار کریں گے۔

ایڈمرل ولیم نے بتایا کہ امریکی فوجی کمپاؤنڈ کے اندر انتظار کریں گے اور کسی بھی پاکستانی کو گولی نہیں ماریں گے۔

رابرٹ گیٹس لکھتے ہیں کہ ”میں نے پوچھا کہ وہ اس وقت کیا کریں گے جب اگر پاکستانیوں نے دیواروں میں شگاف کرڈالا، تو کیا آپ گولی چلائیں گے، یا پھر ہتھیار ڈال دیں گے؟ میں نے کہا کہ ہماری ٹیم ہتھیار نہیں ڈال سکتی۔ اگر پاکستانی فوج وہاں پہنچتی ہے، تو ہماری ٹیم کو چاہیئے کہ وہ کسی بھی طرح سے فرار ہونے کی تیاری کرے۔“

انہوں نے کہا کہ خاصی بحث کے بعد اس کے لیے وسیع معاہدہ کیا گیا اور نتیجے میں اضافی ایم ایچ-47 ہیلی کاپٹرز اور فورسز اس مشن کے لیے تفویض کی گئی۔ رابرٹ گیٹس لکھتے ہیں کہ ایبٹ آباد کارروائی کے حوالے سے کسی نے بھی اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے ضمن میں پاکستانی مدد لینے کے بارے میں بات نہیں کی۔

وہ کہتے ہیں ہ کسی کے ذہن میں یہ خیال نہیں تھا کہ پاکستانیوں سے مدد یا اجازت کے لیے پوچھنا چاہئیے۔ جب بھی ہم نے پاکستانی فوج یا انٹیلی جنس سروسز کو قبل از وقت وارننگ فراہم کی ہے، ایسے ہر مواقع پر ہدف کو پہلے سے خبردار کردیا گیا اور وہ فرار ہوگئے، یا پاکستانی ٹارگٹ تک وقت سے پہلے پہنچے اور یکطرفہ طور پر ناکامی سے دوچار ہوئے۔ رابرٹ گیٹس واضح کرتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر امریکا کی کامیاب کارروائی پاکستانی فوج کے لیے ذلّت کا باعث تھی۔

امریکا کے سابق سیکریٹری دفاع جنوری 2010ء میں اسلام آباد کے اپنے آخری دورے کی یادوں کو دہراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہوں نے اس وقت کے صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات کی تھی، اور یہ یقین کرکے واپس لوٹے تھے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ اپنے اتحاد کو منقطع نہیں کرے گا۔

انہوں نے اسلام آباد کا دورہ ایک واضح اور اصولی پیغام کے ساتھ کیا تھا: ”ہم طویل مدتی اسٹریٹیجک پارٹنر شب کے ساتھ وابستہ ہیں، اور ہمیں دہشت گردوں کے گروہ کے خلاف مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، جو افغانستان، پاکستان اور انڈیا کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔

رابرٹ گیٹس نے یاد دلا یا کہ دونوں ملکوں کو سرحد کے دونوں اطراف دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان کو چاہئیے کہ وہ امریکا مخالف اور امریکیوں کو حراساں کرنے کو کنٹرول کرے۔ اور پاکستانی فوج کی جانب سے ماورائے عدالت قتل ہمارے تعلقات کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

امریکی سیکریٹری دفاع پاکستانی رہنماؤں کی شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس دورے کا نتیجہ صفر رہا، اس لیے کہ انہوں نے اپنے نکتہ نظر ہمارے سامنے پیش نہیں کیے۔

رابرٹ گیٹس اس یقین کے ساتھ واپس لوٹے کہ پاکستانی امریکا کے ساتھ کچھ راستوں پر ہی کام کریں گے، جیسا کہ پاکستان کے ذریعے سپلائی لائن کی فراہمی، جو انتہائی منافع بخش بھی ہے۔ جب کہ اس کے ساتھ ہی وہ طالبان اور دیگر دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں بھی فراہم کرتے رہیں گے۔

پاکستانی ایسا اس لیےچاہتے ہیں کہ وہ یقین کرنا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں اعلیٰ سطح پر جو بھی آئے گا پاکستان اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنا چاہے گا۔ اگر کسی بھی طرح کی وہاں مفاہمت ہوتی ہے تو پاکستانیوں کا کنٹرول اس پر ہونا چاہئیے۔

رابرٹ گیٹس جنہوں نے امریکی حکومت کے لیے چھبیس سالوں سے کام کیا ہے، دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پورے کیرئیر میں کسی امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے لیے اتنی توانائی اور وقت صرف نہیں کیا جس قدر کہ صدر باراک اوبامہ اور ان کے سینئرز ساتھیوں کی ٹیم نے کیا۔

انہوں نے کہا کہ کس طرح اپنی حکومت کے آغاز سے پہلے اوبامہ نے اپنے سینیئر ساتھیوں جن میں ہلیری کلنٹن اور جوبائیڈن بھی شامل تھے، افغانستان، پاکستان اور انڈیا کے معاملات پر ایک گھنٹہ بحث کی تھی۔

وہ لکھتے ہیں کہ ”پاکستان کو سب سے بڑی اور زیادہ خطرناک صورتحال سے دوچار قرار دیا گیا تھا۔“

مارچ 2009ء کے دوران صدر اوبامہ نے اپنی افغان اور پاکستان کی پالیسی کے بروس رائڈل کے مسودے پر سلسلہ وار اجلاس منعقد کیے تھے، جس میں افغانستان اور خاص طور پر پاکستان میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک تباہ کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔

اس نئی پالیسی میں افغانستان میں زیادہ مؤثر حکومت اور افغان سیکیورٹی فورسز کی ترقی پر زور دیا گیا تھا۔

دہشت گردوں اور باغی گروہوں کے لیے پاکستان کی مدد کے خاتمے کے لیے اس میں تجویز پیش کی گئی تھی کہ پاکستان میں سولین کنٹرول کو بڑھایا جائے، اور امریکی سفارتی، فوجی اور انٹیلی جنس چینلز کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان اور انڈیا کے درمیان دشمنی اور بداعتمادی کو کم کیا جائے۔یہ خواہش تعجب خیز تھی۔

جب افغان و پاکستان کی اسٹریٹجی کا صدر اوبامہ نے اعلان کیا تو انہیں بھی پاکستان کے تعاون پر تحفظات تھے۔

رابرٹ گیٹس لکھتے ہیں کہ ”اس بارے میں بھی شک تھا کہ ہم پاکستانیوں کو ان کے حساب کتاب کو تبدیل کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں، اور اس کے بعد ان کی سرحد کی جانب افغان اور دیگر دہشت گردوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ جب ایک پاکستانی طالبان اسلام آباد سے ساٹھ میل کے اندر کارروائی کی تو پاکستانی فوج سوات اور جنوبی وزیرستان میں اپنے تحفظ کے لیے گئی تھی۔

وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان افغان طالبان کے ساتھ رواداری کا برتاؤ جاری رکھے ہوئے ہے، ساتھ ہی ان کے رہنماؤں کو کوئٹہ میں پناہ دینے کی پیش بندی کی اسٹریٹجی ان کے ہمارے اوپر اعتماد کی کمی کی بنیاد ہے، یہ ناراضگی 1990ء کی دہائی کی ابتداء سے افغانستان سے مستقل منسلک رہنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔

یہ کتاب اگلے ہفتے شایع کردی جائے گی۔

تبصرے (3) بند ہیں

Israr Muhammad Jan 11, 2014 10:38pm
رابرٹ‏ ‏گیٹس‏ ‏کا‏ ‏احری‏ ‏جملہ‏ ‏معنی‏ ‏خیز‏ ‏ھے‏ ‏
majid Jan 12, 2014 02:26pm
خبر بہت اچھی ہے لیکن ترجمہ بے حد خراب ہے۔ ڈان کو اپنے مترجم بدل دینے چاہیئیں۔
hamad Jan 14, 2014 02:10pm
etna kch likhny k bd b unhn n ye nh btaya k wo chahtay kia hain.......,.. Agar wo itehadi bnany ke k0shes m hain to wo nakam rahaingy