خیبرپختونخواہ: اے این پی رہنما سمیت آٹھ افراد قتل

اپ ڈیٹ 12 جنوری 2014
اتوار12 جنوری کو سوات کے قریب مرتونگ کے علاقے میں امیر مقام پر حملے کے بعد تباہ شدہ گاڑی کا ایک منظر۔ اے ایف پی تصویر
اتوار12 جنوری کو سوات کے قریب مرتونگ کے علاقے میں امیر مقام پر حملے کے بعد تباہ شدہ گاڑی کا ایک منظر۔ اے ایف پی تصویر
اتوار بارہ جنوری کو دہشتگردوں کے حملے میں ہلاک ہونے والے میاں مشتاق کی ایک یادگار تصویر۔ فائل تصویر
اتوار بارہ جنوری کو دہشتگردوں کے حملے میں ہلاک ہونے والے میاں مشتاق کی ایک یادگار تصویر۔ فائل تصویر

پشاور: نامعلوم مسلح افراد نے پشاور میں سینیئر اپوزیشن لیڈر اور ان کے دو ساتھیوں کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا ہے۔

اتوار کے روز اس سے چند گھنٹوں قبل ہی شانگلہ کے مقام پر ایک اور سینیئر سیاستدان پر حملہ کیا گیا جس میں پانچ پولیس اہلکار مارے گئے تھے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخواہ میں سیکولر خیالات کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی ) کے سینیئر اہلکارمیں مشتاق جب اپنی گاڑی میں تھے تو ان پر حملہ کیا گیا ۔ اس بات کی تصدیق ایک سینیئر پولیس افسر رحیم شاہ نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا۔

' چار سے زائد مسلح افراد نے روڈ کی دونوں جانب سے اس وقت میں مشتاق کی گاڑی پر حملہ کیا جب وہ ان کے قریب آئی۔ فائرنگ کے فوراً بعد ہی حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور قریبی کھیتوں میں غائب ہوگئے،' شاہ نے بتایا۔

' فائرنگ کے اس نتیجے میں دو افراد بھی مارے گئے ہیں،' انہوں نے کہا۔

واضح رہے کہ عوامی نیشنل پارٹی گزشتہ برس تک صوبہ خیبرپختونخواہ کی حکمراں جماعت رہی ہے اور نہ صرف زبانی طور پر طالبان پر تنقید کرتی ہے بلکہ ان کیخلاف فوجی آپریشن کی حمایت بھی کرتی رہی ہے۔

اس صوبے میں پاکستان تحریکِ انصاف ( پی ٹی آئی ) کی اتحادی حکومت ہے لیکن اب بھی اے این بھی دہشتگردوں کا ہدف بنی ہوئی ہے۔

اس واقعے سے چند گھنٹے قبل سوات کے علاقے مرتونگ میں سڑک کنارے نصب بم کے ذریعے حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے امیر مقام کو نشانہ بنایا گیا۔ وزیرِ اعظم پاکستان کے مشیر پر سوات میں حملہ کیا گیا جو سال 2007 سے 2009 تک پاکستانی طالبان کے زیرِ اثر تھا۔

' اس واقعے میں کم ازکم پانچ پولیس اہلکار مارے گئے اور چار زخمی ہوئے ہیں،' سینیئر پولیس اہلکار عبداللہ خان نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا۔

زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کو دوسری گاڑیوں کے ذریعے ہسپتال منتقل کیا گیا۔

ایک سینیئر پولیس افسر گلزار خان نے اس حملے کی تصدیق کی ہے اور اس کے بعد وزیرِ اعظم ہاؤس نے اس کی مذمت کی ۔

خان کے مطابق اس واقعے میں دو دیسی ساختہ بم ( ائی ای ڈی) چند سیکنڈوں کے وقفے سے تباہ کئے گئے اور جائے حادثہ سے ملنے والا تیسرا بم پھٹنے سے رہ گیا تھا جسے بعد میں بم ڈسپوزل اسکواڈ نے ناکارہ بنادیا۔

امیر مقام نے کہا کہ وہ خیرت سے ہیں لیکن اپنی سیکیورٹی پر موجود اہلکاروں کی ہلاکت پر انہوں نے افسوس کا اظہار کیا۔

' خدا کا شکر ہے کہ میں محفوظ ہوں ۔ مجھے رنج ہے کہ میرے لوگوں کا جانی نقصان ہوا ہے جو مجھے بچاتے ہوئے مارے گئے،' انہوں نے کہا۔

امیر مقام انتخابات کے سلسلے میں ایک رابطہ مہم پر اس علاقے کا دورہ کررہے تھے۔

شانگلہ اور اس سے متصل علاقے میں تحریکِ طالبان پاکستان کے عناصر موجود ہیں اور وہ آئے دن دہشتگردی کی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔

طالبان کا اعتراف

کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے خیبرپختونخواہ سے تعلق رکھنے والی دو اہم شخصیات پر حملے کی ذمے داری قبول کرلی ہے۔

ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہداللہ شاہد نے ڈان ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بڈھ بیر میں میاں مشتاق کو بھی انہوں نے قتل کیا ہے۔

ترجمان کے مطابق امیر مقام ان کی ہٹ لسٹ پر تھے جبکہ اے این پی اب بھی ان کے ٹارگٹ میں شامل ہے۔ سابق صدر مشرف کے عہد میں امیر مقام کے گھر پر بھی حملہ کیا گیا تھا لیکن وہ محفوظ رہے تھے اور ایک ایم پی اے پیر محمد خان اس میں ہلاک ہوئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Amir Nawaz Khan Jan 13, 2014 03:53pm
دہشتگرد ملک کو اقتصادی اور دفاعی طور پر غیر مستحکم اور تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ملک اور قوم کی دشمنی میں اندہے ہو گئے ہیں . انتہا پسند قوتیں پاکستان میں سیاسی اور جمہوری عمل کو ڈی ریل کرنے کی کو ششیں کر رہی ہیں. دہشت گرد خود ساختہ شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں اور پاکستانی عوام پر اپنا سیاسی ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں جس کی دہشت گردوں کو اجازت نہ دی جا سکتی ہے۔ معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا، قتل و غارت کرنا، خود کش حملوں کا ارتکاب کرنا اورپرائیوٹ، ملکی و قومی املاک کو نقصان پہنچانا، مسجدوں پر حملے کرنا اور نمازیوں کو شہید کرنا ، عورتوں اور بچوں کو شہید کرناخلاف شریعہ ہے اور جہاد نہ ہے۔ کسی بھی مسلم حکومت کے خلاف علم جنگ بلند کرتے ہوئے ہتھیار اٹھانا اور مسلح جدوجہد کرنا، خواہ حکومت کیسی ہی کیوں نہ ہو اسلامی تعلیمات میں اجازت نہیں۔ یہ فتنہ پروری اور خانہ جنگی ہے،اسے شرعی لحاظ سے محاربت و بغاوت، اجتماعی قتل انسانیت اور فساد فی الارض قرار دیا گیا ہے۔ دہشت گرد ،اسلام کے نام پر غیر اسلامی و خلاف شریعہ حرکات کے مرتکب ہورہے ہیں اور اس طرح اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ طالبان ،لشکر جھنگوی، جندوللہ اور القائدہ ملکر پاکستان بھر میں دہشت گردی کی کاروائیاں کر رہے ہیں ۔ دہشت گرد گروپوں کےطاقت کے بل بوتے پر من مانی کرنے کے بڑے دورس نتائج نکل سکتے ہیں۔
Toofan Jan 14, 2014 04:00am
Yeh hamare hamwatnon ko ek ek kar ke maarenge aur hum apne aankhen band kar in se muzakraat karenge. Magar muzakraat insaanon se hota hai aur yeh log to jaanwar kehlaane ke laayeq bhee nahin hain.