وزیرِ داخلہ کی ٹی ٹی پی کو دوبارہ امن مذاکرات کی پیشکش

13 جنوری 2014
وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے واضح کیا کہ اگر دہشت گردوں نے تشدد ترک نہیں کیا تو ان کے خلاف بھرپور قوت کے ساتھ حملہ کردیا جائے گا۔ —. فائل فوٹو
وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے واضح کیا کہ اگر دہشت گردوں نے تشدد ترک نہیں کیا تو ان کے خلاف بھرپور قوت کے ساتھ حملہ کردیا جائے گا۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: اس بات کا انکشاف کرتے ہوئے کہ کچھ دہشت گرد گروہوں کے ساتھ مذاکرات ایک نازک مرحلے میں داخل ہوچکے تھے، کل بروز اتوار بارہ جنوری کووزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر گروپس حکومت کی جانب سے کی جانے والی مذاکرات کی پیشکش کی بہت زیادہ مخالفت ہی کی ہے۔

کل یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ چند دنوں میں واضح ہوجائے گا کہ مذاکرات کا عمل کس رفتار کے ساتھ آگے بڑھتا ہے، لیکن انہوں نے مثبت نتائج کے لیے امید کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ان گروپس کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے مثبت ردّعمل سامنے آتا ہے تو حکومت اس عمل کو سنجیدگی اور ذمہ دارانہ طرزِ عمل کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے تیار ہے۔

وزیرداخلہ نے واضح کیا کہ اگر دہشت گردوں نے تشدد ترک کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تو ان کے خلاف تمام امکانی قوت اور وسائل کے ساتھ حملہ کردیا جائے گا۔ ”اب وقت آگیا ہے کہ برسوں سے جاری موت کے برہنہ رقص سے اس سرزمین کو چھٹکارا دلایا جائے۔“

مذاکرات کی راہ سے انکار کرنے کی صورت میں انہوں نے کہا کہ اگرچہ مذہب بدلے کی اجازت دیتا ہے، معافی بہت خوشگوار عمل ہے۔

”ان میں کیا فرق ہے جو مذاکرات کے بجائے بدامنی، ہلاکت اور بم دھماکوں کے آپشن کا انتخاب کرتے ہیں، اور بیرونی قوتیں ان کے پشت پناہی کرتے ہوئے ملک کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کی جانب لے جانا چاہتی ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے حکومتی کنٹرول سے باہر ہیں، اور ان کے ملک کے لوگوں کو سزا دینے کے لیے یہ طریقہ مناسب نہیں تھا۔

”انہیں سمجھنا چاہئیے کہ اس طرح کے غارتگر حملوں سے مذاکرات، امن اور مصالحت کی کوششیں تباہ ہوجاتی ہیں۔“

جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر یہ گروپس اپنے ہتھیار ڈال سکتے ہیں تو ان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جاسکتا ہے، تو انہوں نے کہا کہ دوسری جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا، لیکن اس پر مذاکرات کے دوران تبادلۂ خیال کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذہبی شخصیات سمیت بہت سے لوگ دہشت گرد گروہوں کے ساتھ مذاکرات میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔

چوہدری نثار نے کہا کہ ایک ڈرون حملے نے مذاکرات کے پورے عمل کو چند ہفتے پہلے اپنے راستے سے ہٹا دیا تھا، لیکن حکومت نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور مذاکرات کا انعقاد اب بھی اس کی پہلی ترجیح ہے۔

فوجی آپریشن کے حامیوں سے انہوں نے کہا کہ طاقت کا استعمال اس مسئلے کے ایک پہلو کو حل کرے گا۔

”ہم ایک مخصوص علاقے میں مرتکز ایک واضح طاقت کا سامنا نہیں کررہے ہیں۔“ کراچی میں ایک پولیس آفیسر چوہدری اسلم کی ہلاکت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت سے ایک فوجی آپریشن کے لیے کہا جارہا تھا۔ ”کیاجنوبی وزیرستان یا فاٹا میں ایک آپریشن سے پورے ملک میں امن قائم کیا جاسکے گا؟“

انہوں نے کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں جو ذمہ داری دی گئی تھی، حکومت کی پالیسی انہی خطوط پر مرتب کی گئی تھی، اور وہ مذاکرات کو حقیقت بنانے کی کوشش کررہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے عمل کو ملکی خودمختاری اور قانون کے تحفظ اور وقار کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کا عزم ہے کہ ملک بھر میں بالعموم اور قبائلی علاقوں میں بالخصوص امن کو بحال کیا جائے۔

پرویز مشرف کے مقدمے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اس خیال کو مسترد کردیا کہ سعودی وزیرِ خارجہ کا حالیہ دورہ سابق فوجی آمر کے لیے ”محفوظ راستہ“ دینے کے متعلق تھا۔

انہوں نے کہا کہ سعودی وزیر نے نہ تو اپنی کسی باضابطہ ملاقاتوں میں اس معاملے کو اُٹھایا اور نہ ہی غیر رسمی ملاقاتوں کے دوران اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔

انہوں نے اس تاثر کو بھی مسترد کردیا کہ جب مشرف کا اچانک راستہ تبدیل کردیا گیا اور انہیں عدالت میں غداری کے مقدمے میں پیش ہونے کے بجائے آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (اے ایف آئی سی) لے جایا گیا تو وہ اس سے لاعلم تھے۔

انہوں نے کہا کہ راستہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کار کے اندر اس وقت کیا گیا جب مشرف ایک تکلیف کا سامنا کررہے تھے۔ ایس پی (سیکیورٹی) آف اسلام آباد اور ریٹائرڈ جنرل مشرف کے سیکیورٹی آفیسر اس وقت کار میں ان کے ہمراہ تھے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ راستے کی تبدیلی کے فیصلے سے انہیں آگاہ کیا گیا تھا، اور انہوں نے وزیراعظم کو بھی مطلع کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ مشرف کے اے ایف آئی سی میں پہنچنے کے بعد ٹرپل ون بریگیڈ کے گارڈ وہاں تعینات کردیے گئے تھے، اور یہاں تک کہ ہسپتال میں بھی جو لوگ موجود تھے ان کے وہاں پہنچنے تک کی پیش رفت سے لاعلم تھے۔

انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ جنرل مشرف کی اہلیہ صہبا مشرف نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے دیے گئے ایک غیرواضح فیصلے کی بنیاد پر ان کے نام کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے خارج کرنے کی درخواست دی تھی۔

وزیرِ داخلہ نے کہا کہ ان کا نام ای سی ایل میں فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کی درخواست پر شامل کیا گیا تھا، اس لیے کہ ان کے خلاف ایک حساس مقدمہ زیرِ التوا ہے، انہوں نے واضح الفاظ میں یہ اشارہ دیا کہ ان کا نام اس فہرست سے خارج نہیں کیا جائے گا۔

چوہدری نثار نے کہا کہ نادرا کی کارکردگی کا ایک آڈٹ جلد ہی شروع کیا جائے گا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Jan 13, 2014 10:03pm
ھم‏ ‏امن‏ ‏چاھتے‏ ‏ھیں‏ ‏اور‏ ‏امن‏ ‏مزاکرات‏ ‏کے‏ ‏زریعے‏ ‏ممکن‏ ‏‏ ‏ہوسکتا‏ ‏ھے‏ ‏لیکن‏ ‏مزاکرات‏ ‏کی‏ ‏خواہش‏ ‏دوطرفہ‏ ‏ھونا‏ ‏چاھیے‏ ‏بصورت‏‏ ‏دیگر ‏مزاکرات‏ پھر‏ ‏‏مزاکرات‏ ‏نھیں‏ ‏رھتے‏‏ ‏ اور‏ ‏براہ‏ ‏مہربانی‏ ‏مزاکرات‏ ‏میں‏ ‏سیاست‏ ‏سے‏ ‏گریز‏ ‏کرنا‏ ‏ھوگا‏ ‏حکومت‏‏ ‏کو ‏بھی‏ ‏اور‏ ‏اپوزیشن‏ ‏کو‏ ‏بھی‏ ‏ مزاکراتی‏ عمل‏ ‏میں‏ ‏اسٹیبلشمنٹ‏ ‏کی‏ ‏رائے‏ ‏ضروری‏ ‏نہیں‏ ‏‏ ‏سیاسی‏‏ ‏‏قیادت‏ ‏کا‏ ‏فیصلہ‏ ‏قوم‏ ‏کا‏ ‏فیصلہ‏ ‏ھوگا‏ ‏ ‏‏ ‏ ‏