طالبان نے حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی اور مذاکرات پر بھی رضامند

اپ ڈیٹ 20 جنوری 2014
تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد(درمیان میں) کا کہنا ہے کہ اگر یہ حکومت ڈرون حملوں کو روک کر اور قبائلی علاقوں سے فوج واپس بلوا کر اپنا اختیار اور اخلاص ثابت کردے تو طالبان اپنی قیادت کے بھاری نقصانات کا سامنا کرنے کے باوجود بامعنی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ —. فائل فوٹو اے پی
تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد(درمیان میں) کا کہنا ہے کہ اگر یہ حکومت ڈرون حملوں کو روک کر اور قبائلی علاقوں سے فوج واپس بلوا کر اپنا اختیار اور اخلاص ثابت کردے تو طالبان اپنی قیادت کے بھاری نقصانات کا سامنا کرنے کے باوجود بامعنی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ —. فائل فوٹو اے پی

بنوں: بنوں چھاؤنی کا دھماکہ جس میں بیس سپاہی ہلاک اور تیس زخمی ہوئے تھے، کے فوری بعد تحریک طالبان پاکستان نے اس ہلاکت خیز حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا اور اسی وقت ہی کہا کہ وہ حکومت کے ساتھ بامعنی مذاکرات چاہتے ہیں۔

تحریکِ طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان کی تنظیم حکومت کے ساتھ سنجیدہ اور بامعنی مذاکرات کے لیے تیار تھی۔ ”اس کے باوجود کہ ہمارا بھاری نقصان ہوا ہے، ہم بامعنی مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے خودکش بمبار نے اپنی دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی گاڑی کو بنوں چھاؤنی کے داخلی راستے پرسیکیورٹی فورسز کے قافلے سے ٹکرادیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”یہ حملہ ہمارے کمانڈر ولی الرحمان کا بدلہ لینے کے لیے کیا گیا تھا۔“

ولی الرحمان، تحریک طالبان پاکستان کے نائب سربراہ تھے، جو امریکی ڈرون حملے میں گزشتہ سال مئی میں ہلاک ہوگئے تھے۔

اے ایف پی:

شاہد اللہ شاہد نے ٹیلی فون کے ذریعے نامعلوم مقام سے کہا کہ ”یہ سیکیولر نظام کے خلاف ہماری جنگ کا ایک حصہ تھا۔“

انہوں نے کہا کہ ”ہم مستقبل میں ایسے مزید حملے کریں گے۔“ ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان اپنے سابق سربراہ حکیم اللہ محسود اور ولی الرحمان کی ہلاکتوں کا بدلہ لینے کے لیے موقع کی تلاش میں تھے۔“ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد طالبان کی جانب سے یہ عزم ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ نواز شریف کی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گے۔

لیکن شاہد اللہ شاہد کا کہنا ہے کہ اگر یہ حکومت ڈرون حملوں کو روک کر اور قبائلی علاقوں سے فوج واپس بلوا کر اپنا اختیار اور اخلاص ثابت کردے تو طالبان اپنی قیادت کے بھاری نقصانات کا سامنا کرنے کے باوجود بامعنی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

طالبان باغیوں نے پاکستانی ریاست کے خلاف 2007ء سے ایک خونی مہم شروع کر رکھی ہے، جس کے دوران سیکیورٹی فورسز اور سرکاری اہداف پر سینکڑوں حملے کیے جاچکے ہیں۔

ایک ریٹائرڈ جنرل اور سیکیورٹی تجزیہ نگار طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ فوج پر کیے گئے حالیہ حملے فوج کے صبر کی جانچ کرنے کے لیے تھے، اور ان کے حوصلے کو انتہائی پست کرنے کے لیے تھے۔

انڈیپنڈنٹ پاکستان انسٹیٹیوٹ برائے مطالعہ امن کے مطابق حکومت کہہ چکی ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے کوشش کررہی ہے، لیکن اب تک اس ضمن میں بہت کم پیش رفت دیکھی گئی ہے، اور دہشت گردانہ حملوں میں 2013ء کے دوران بیس فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

طلعت مسعود نے کہا کہ حکومتی پالیسی فوج کے اندر مایوسی پیدا کررہی ہے۔ ”لوگوں کے سامنے یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ حکومت غیر مؤثر اور مفلوج ہے اور اس کی کوئی پالیسی یا حکمت عملی نہیں ہے۔“

تبصرے (1) بند ہیں

Syed Jan 20, 2014 07:04pm
اِن تمام دہشتگردانہ کارروائیوں کی ذمہ دار نواز، شہباز اور عمران خان کی طالبان نواز وفاقی اورصوبائی حکومتیں ہیں جو نہ تو اِن خون کے طالبوں کی نام لے لےکر پُرزور اورکھلی مزمت کرتی ہیں اور نہ ہی سیکیورٹی اداروں کو ان تمام دہشت گردوں اور اِن کے ہمدردوں حلقووں کے خلاف بلا تفریق بھرپور آپریشن کرنے کا حکم دیتی ہیں۔۔۔