زراعت پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی اور قومی شرح نمو (جی ڈی پی) میں یہ لگ بھگ پانچواں حصہ فراہم کرتا ہے۔

یہی شعبہ سب سے بڑی برآمدی مصنوعات (ٹیکسٹائل و ملبوسات) تیار کرنے والی صنعتوں کے واسطے خام مال فراہم کرتا ہے۔ ملک کی مجموعی لیبر فورس کا تقریباً نصف حصہ روزگار کے واسطے اسی پر انحصار کرتا ہے۔ یہی وہ شعبہ ہے جہاں سب سے زیادہ بڑی تعداد میں خواتین خدمات سرانجام دیتی ہیں۔

لیکن اب معیشت کایہ اہم حصہ حکام کی مجموعی غفلت اور متعلقہ حصوں، جیسے برسوں سے آب پاشی کے نظام پر کمزور سرمایہ کاری، طریقہ کار، تحقیق اور مارکیٹنگ کے فقدان، زمین کی پیداواری صلاحیت میں کمی اور اس کے ساتھ ساتھ بعد از پیداوار نقصانات کے باعث تیزی سے روبہ زوال ہے۔

تیزی سے بدلتے موسمیاتی حالات، قلتِ آب، قرض تک رسائی کی ناقص صورتِ حال، نئی ٹیکنالوجیز کی کمی اور بھاری پیداواری لاگت کے باعث گذشتہ کئی برسوں سے زرعی پیداوار میں بدستور واضح کمی آرہی ہے۔

گاؤں، دیہاتوں کے مکینوں کی بڑی اکثریت، بالخصوص چھوٹے گھرانے اور چھوٹے کاشتکار، معاش اور آمدنی کی خاطر براہ راست فصلوں کی پیداواراور گلّہ بانی پر انحصار کرتے ہیں تاہم وہ بدستور پسماندگی کا شکار ہیں، جس کے باعث روزگار کی تلاش میں دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے۔

اس کے نتیجے میں شہری انفرا اسٹرکچر پر نہ صرف اتنا زیادہ دباؤ پڑچکا کہ وہ منہدم ہونے کے قریب ہے بلکہ ساتھ ہی، شہروں میں جرائم اور تشدد کی شرح بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

گذشتہ روز اسلام آباد میں منعقدہ ایک کانفرنس میں وزیر برائے ترقیات و منصوبہ نے درست اشارہ کیا کہ 'زراعت کو ترقی دیے بنا مربوط ترقی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔'

وزیرِ موصوف نے معیشت کے اس بنیادی شعبے کی ترقی کے لیے نہ صرف مالیاتی وسائل کی فراہمی کا وعدہ کیا بلکہ اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ زرعی بنیادوں پر استوار صنعتوں ( جیسے فوڈ پراسیسنگ، پیکجنگ وغیرہ) کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات برآمد کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا حکومت ان وعدوں کو وفا بھی کرتی ہے۔ ان کی پیش رو حکومتوں نے بھی کچھ ایسے ہی دعوے اور وعدے کیے تھے لیکن وفا نہ کرسکے۔

ملکی زرعی شعبے میں بہت صلاحیت ہے جس کو ابھی پوری طرح استعمال میں نہیں لایا جاسکا۔ بدقسمتی سے زوال پذیر اس صورتِ حال کو درست پالیسی کے ذریعے بدلا بھی جاسکتا ہے۔ اگر دوسرے اپنے کاشتکاروں کی مدد کرسکتے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ تاہم درست پالیسیوں کی شمولیت کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ کاشتکاروں کو سبسڈی فراہم کی جائے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت زرعی انفرا اسٹرکچر اور تحقیق میں سرمایہ کاری کرے، نئی ٹیکنالوجیز متعارف کرائے تاکہ فی ایکڑ زیادہ سے زیادہ پیداوار اور بعد از فصل ہونے والے نقصانات پر قابو پاکر، چھوٹے کاشتکاروں کی مدد کرسکے۔

اس وقت پاکستان خوراک درآمد کررہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ زرعی پیداوار کی برآمدات یا زرعی مصنوعات کو ویلیو ایڈڈ بنانے سے قبل، داخلی ضروریات کے مطابق خوراک کے ضمن میں ملک کو محفوظ بنایا جائے۔

ایک بھوکی قوم دوسروں کا پیٹ کبھی نہیں بھر سکتی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں