کابل: وزارتِ دفاع کی بس پر حملہ، چار افراد ہلاک

26 جنوری 2014
کابل میں وزارت داخلہ کے ترجمان  نے عالمی خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اتوار کی صبح ہونے والے واقعہ میں خودکش حملہ آور پیدل چل کر بس کے قریب آیا اور خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
کابل میں وزارت داخلہ کے ترجمان نے عالمی خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اتوار کی صبح ہونے والے واقعہ میں خودکش حملہ آور پیدل چل کر بس کے قریب آیا اور خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

کابل: افغانستان کے دارالحکومت کابل میں آج اتوار کی صبح ایک طالبان خودکش حملہ آور نے وزارتِ دفاع کی بس کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں کم سے کم چار افراد ہلاک ہوگئے۔

حکام نے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں تین افراد وہ ہیں جو بس میں موجود تھے، جبکہ ایک خاتون راہگیر بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔

رواں مہینے 17 جنوری کو کابل کے ایک مشہور ریستوران میں ہونے والے طالبان کے خودکش حملے کے بعد یہ پہلا بڑا حملہ تھا۔

یاد رہے کہ ریستوران میں ہوئے اس حملے میں 21 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں 13 غیر ملکی بھی شامل تھے۔

کابل میں وزارت داخلہ کے ترجمان صدیق صدیقی نے عالمی خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اتوار کی صبح ہونے والے واقعہ میں خودکش حملہ آور پیدل چل کر بس کے قریب آیا اور خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

متاثرہ بس میں وزارتِ دفاع کا عملہ سوار تھا۔

پولیس سے حاصل ہونے والی ابتدائی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ واقعہ میں نو کے قریب افراد زخمی ہوئے ہیں۔

دوسری جانب افغان طالبان کے ایک ترجمان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر آج کے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

واضح رہے کہ افغانستان میں موجود نیٹو افواج رواں سال کے آخر تک ملک سے انخلا کرجائے گی، تاہم امریکا کے ساتھ ایک معاہدے کے ذریعے کچھ امریکی فوجی 2014ء کے بعد میں یہاں موجود رہیں گے۔

گزشتہ روز خود افغان صدر حامد کرزئی یہ کہہ چکے ہیں کہ جب تک امریکا اور پاکستان طالبان سے مذاکراتی عمل کا آغاز نہیں کرتے، اس وقت تک امریکا کے ساتھ سیکورٹی معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے۔

اس وقت افغانستان میں تقریباً 58 ہزار نیٹو افواج موجود ہیں جنہیں 2014 کے اختتام تک انخلا متوقع ہے۔

امریکا نے نیٹو کے انخلا کے بعد افغان افواج کی طالبان کے خلاف مدد اور تربیت کے لیے 10 ہزار امریکی فوجی افغانستان میں چھوڑنے کی تجویز پیش کی تھی۔

گزشتہ سال جون میں قطر میں بات چیت کے لیے طالبان نے دفتر کھولا تھا لیکن اس پر کرزئی نے برہمی کا اظہار کیا تھا جس کے بعد طالبان دفتر کے ساتھ مذاکرات کے راستے بھی بند ہو گئے تھے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Amir Nawaz Khan Jan 27, 2014 03:49pm
خودکش حملے اور بم دھماکے اسلام میں جائز نہیں یہ اقدام کفر ہے. اسلام ایک بے گناہ فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے اور سینکڑوں ہزاروں بار پوری انسانیت کاقتل کرنے والے اسلام کو ماننے والے کیسے ہو سکتے ہیںمعصوم شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا، قتل و غارت کرنا، خود کش حملوں کا ارتکاب کرنا اورپرائیوٹ، ملکی و قومی املاک کو نقصان پہنچانا، مسجدوں پر حملے کرنا اور نمازیوں کو شہید کرنا ، عورتوں اور بچوں کو شہید کرناخلاف شریعہ ہے۔ کسی بھی مسلم حکومت کے خلاف علم جنگ بلند کرتے ہوئے ہتھیار اٹھانا اور مسلح جدوجہد کرنا، خواہ حکومت کیسی ہی کیوں نہ ہو اسلامی تعلیمات میں اجازت نہیں۔ یہ فتنہ پروری اور خانہ جنگی ہے،اسے شرعی لحاظ سے محاربت و بغاوت، اجتماعی قتل انسانیت اور فساد فی الارض قرار دیا گیا ہے۔