آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں گرماگرم مباحثے کا امکان

اپ ڈیٹ 27 جنوری 2014
نئے سال میں قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس آج بروز پیر ستائیس جنوری کی سہ پہر چار بجے شروع ہورہا ہے۔ —. فائل فوٹو
نئے سال میں قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس آج بروز پیر ستائیس جنوری کی سہ پہر چار بجے شروع ہورہا ہے۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: نئے سال میں قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس آج بروز پیر کو تاخیر سے شروع ہورہا ہے، اور اپنی تشکیل کے آٹھ مہینوں کی مدت میں اس مرتبہ اس ایوان کو قانون سازی کے غیرمعمولی ڈیڈلاک کے حوالے سے کچھ فوری نوعیت کے معاملات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس سے پہلے ایوان کے اجلاس کا شیڈول بیس جنوری طے تھا، جسے بعد میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر تبدیل کردیا گیا، جبکہ اس مہینے کے دوران ملک میں بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے، جیسا کہ عام شہریوں اور فوجیوں دونوں پر ہی ہلاکت خیز دہشت گرد حملے کیے گئے، لیکن وزیراعظم نواز شریف کی آٹھ ماہ پُرانی حکومت نے ملک کے اعلٰی سطح کے اس فورم کے قانون سازوں سے فوری طور پر مشاورت کی کوشش نہیں کی۔

اس طرح کے واقعات جیسے کہ بنوں اورراولپنڈی میں نیم فوجی دستوں پر حملے اور ان میں اہلکاروں کی ہلاکتیں، مستونگ، بلوچستان میں ایران سے واپس لوٹنے والے شیعہ زائرین کا قتلِ عام، اور کراچی وپشاور میں پولیو ویسکین پلانے والے ہیلتھ ورکروں کی ٹیم پر ہلاکت خیز حملوں کے حوالے سے ایوانِ زیریں میں زوردار بحث کا امکان ہے۔

اس ماہ کی ابتداء میں سینیٹ کے اجلاس کے دوران بنوں میں 19 جنوری کے حملے، جس میں پیرا ملٹری فرنٹیئر کور کے تقریباً بیس سپاہی ہلاک، اور اس کے اگلے روز روالپنڈی کنٹونمنٹ میں کیے گئے حملے میں ساتھ فوجی سپاہی اور کئی عام شہری ہلاک ہوئے تھے، پر ہلکی پھلکی بحث ہوئی تھی۔ اس حوالے سے قومی غم و غصے میں اس وقت کمی آئی جب جوابی کارروائی کے طور پر شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں مشتبہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے گئے، جس میں تقریباً چالیس افراد ہلاک ہوئے۔

نو ستمبر کو منعقدہ کل جماعتی کانفرنس میں حکومت کو دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے ایک مینڈیٹ دیا گیا تھا، جو عملی طور پر لاحاصل رہا تھا، یاطالبان کے مرکزی گروپ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ٹھکرادیا گیا تھا، اسی نے بنوں اور راولپنڈی میں کیے گئے دونوں حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس بات کا امکان ہے کہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کے خلاف فوجی کارروائی کا مطالبہ کیا جائے گا۔

حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے اس سے پہلے کے کچھ حملوں اور اکیس جنوری کو شیعہ زائرین کی بس پر کار بم حملے جس میں چوبیس افراد ہلا ک ہوئے تھے کے بشمول علیحدہ علیحدہ تحریک التواء جمع کروا دی ہیں۔

لیکن ان معاملات پر بحث صرف اسی صورت میں ہوسکے گی، جب پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف اپنے بائیکاٹ کو ختم کرنے کا فیصلہ کریں گی، یہ بائیکاٹ ان جماعتوں نے ایوان کے پچھلے اجلاس کے دوران وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنے ایک قابل اعتراض لفظ ”تماشہ“ کو واپس لینے سے انکار کردیا تھا۔ پنجاب میں ان انتخابی حلقوں میں جہاں سے پی ٹی آئی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، وہاں کے ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے لیے پی ٹی آئی کی مہم کی وضاحت کے لیے یہ لفظ استعمال کیا تھا۔

آج چار بجے سہہ پہر کو شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اس اجلاس سے پہلے اپنے بائیکاٹ کو جاری رکھنے یا ختم کرنے کے بارے میں حزبِ اختلاف کو ایک فیصلہ کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ وزیراعظم بھی حکمران مسلم لیگ نون کی پارلیمانی پارٹی کا ایک اجلاس طلب کرچکے ہیں، جس میں امکان ہے کہ اس حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حزب اختلاف کے نکتۂ نظر کو اپنایا جائے یا اس کو مسترد کردیا جائے، اس کے ساتھ ساتھ اس اجلاس میں ایک نئے صدارتی فرمان کا جائزہ بھی لیا جائے۔ پروٹیکشن آف پاکستان آرڈیننس (پی پی او) کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مشتبہ افراد سے نمٹنے کے لیے کچھ متنازعہ اختیارات دیے جارہے ہیں۔

اپنے قیام سے لے کر اب تک کے آٹھ مہینوں کے دوران جون میں، 2013-14ء کے مالی سال کے لیے بجٹ پاس کرنے کے علاوہ اس ایوان نے ایک بل پاس کیا تھا، اور پی پی او پہلے ہی قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی منظور کرچکی ہے۔گزشتہ ہفتے جاری ہونے والے ترمیمی آرڈیننس کی منظوری اس ایوان کی پہلی باقاعدہ قانون سازی ہوگی، جسے 342 نشستوں کی اسمبلی میں حکومت کو بھاری اکثریت حاصل ہونے کی وجہ سے باآسانی پاس کرالیا جائے گا۔

لیکن قانونی اور انسانی حقوق کے گروپس کے علاوہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر مشتبہ افراد کو موقع پر ہلاک کرنے اور بغیر مقدمہ چلائے نوّے دن تک زیرِ حراست رکھنے کے اختیارات دیے جانے کا اختیار حاصل ہوجائے گا۔

مسلم لیگ نون اور اس کے اتحادی سینیٹ کے 104 نشستوں کے ایوان میں اقلیت میں ہیں، اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ حکومت نئے قوانین لانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ اگرچہ حکومت کا خیال ہے کہ مارچ 2015ء ایوانِ بالا کے وسط مدتی انتخابات کے بعد یہ صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے۔

حالانکہ سابق فوجی حکمران صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کے الزامات پر خصوصی عدالت میں زیرِ سماعت مقدمہ ان کی بیماری کی وجہ سے تعطل کا شکار ہے، امکان ہے کہ قومی اسمبلی میں اس کی گونج سنائی دے۔ اس کے علاوہ اراکین اسمبلی اور گیلری میں بیٹھے ہوئے افراد بھی وزیراعظم کی ایوان عدم شرکت کی وجہ سے متفکر ہیں، اس لیے کہ انہوں نے بجٹ اجلاس کے بعد سے ایوان میں قدم نہیں رکھا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں