قیدیوں کا فرار

29 جنوری 2014
زیرِ سماعت قیدیوں کا پولیس تحویل سے فرار معجزے سے کم نہیں، سلسلہ رکتا دکھائی نہیں دیتا
زیرِ سماعت قیدیوں کا پولیس تحویل سے فرار معجزے سے کم نہیں، سلسلہ رکتا دکھائی نہیں دیتا

یہ صرف استغاثہ کی کزوری نہیں جو ملزمان کو تحویل سے فرار کی متواتر اجازت بخشتی ہے: یہاں دوسروں کی طرح پولیس بھی سادہ آپشن سے مکمل استفادہ کرتی نظر آتی ہے کہ ملزمان کو راہ فرار ہی دے دی جائے۔

نہایت معجزانہ عمل ہے کہ پولیس تحویل میں موجود زیرِ سماعت قیدی اس طرح اپنی ہتھکڑی کھولے، دیوار پھلانگے اور نظروں سے اوجھل ہوجائے کہ نگرانی پر معمور پولیس اہلکاروں کو فرار کی ہوا تک نہ لگ سکے۔

ملزمان کے فرار پر متعلقہ اہلکاروں کے خلاف غفلت کا مقدمہ درج ہوتا ہے، معطل کیے جاتے ہیں اور پھر بے نتیجہ طویل محکمہ جاتی تحقیقات شروع کردی جاتی ہیں۔

ملک بھر کی عدالتوں کے باہر کے مناظرتصدیق کرتے ہیں کہ پہلے سے خطرات کی زد میں آئی پولیس کی تحویل سے زیرِ سماعت قیدیوں کا فرار کوئی خاص مسئلہ نہیں۔

بدعنوانی، نااہلیت، جدید اسلحہ سے لیس ملزمان کا خوف، یہاں ایسے متعدد عوامل ہیں، جن کی بنا پر زیرِ سماعت قیدیوں کا پولیس تحویل سے فرار کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں رہا۔

اگرچہ راولپنڈی اور اوکاڑہ میں اس طرح کے بعض واقعات کی محکمہ جاتی تحقیقات میں، مددگار عوامل پر کچھ زیادہ روشنی تو نہیں ڈالی گئی تاہم ایسی بعض تجاویز ضرور دی گئی ہیں کہ جن پر عمل سے، مستقبل میں اس طرح، فرار کے واقعات کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔

ان رپورٹوں میں پیش کردہ بعض تجاویز سے، قانون اور انصاف کے درمیان پہلے مرحلے پر موجود، پولیس کی شہرت سے متعلق بھی بعض مایوسیوں کا اظہار ہوتا ہے۔

ان رپورٹوں کے مصنفین میں سے ایک تجویز دیتے ہیں کہ قیدیوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر عدالت میں پیش کرنے کا حق دوبارہ پولیس کو دیا جانا چاہیے۔

ایک اور اہم تجویز، قیدیوں کے مقدمات کی وڈیو سماعت کی بھی ہے تاہم آگے چل کر جب یہ تجویز پیش کی جاتی ہے کہ زیرِ سماعت قیدیوں کے فرار کی روک تھام کے لیے ہتھکڑیوں کا معیار بہتر بنانا چاہیے، تو مسئلے کی نشاندہی بھی ہوجاتی ہے۔

ان رپورٹوں میں زیرِ سماعت قیدیوں کے فرار کی جن وجوہات کا تذکرہ کیا گیا، یہ اُن میں سے چند ہیں تاہم کسی سینئر پولیس افسر کی طرف سے ان دریافت کی واقعی تحقیقات کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہنی چاہیے۔

اگرچہ طویل عرصے سے درپیش مسائل ان رپورٹوں میں اچھی طرح واضح کردیے گئے تاہم اخذ کردہ نتائج کے ان دو نکات پر، فوری کارروائی یا اصلاحات کی بہت زیادہ امید نہیں ہے۔

اس بات کا خدشہ ہے کہ ان تحقیقاتی رپورٹوں کا مقدر بھی، اس ملک میں کی جانے والی دوسری تحقیقات جیسا ہی ہوگا۔ یہ بھی ایک بار پھر، کہیں وقت کے زیاں کی روایت ثابت ہوسکتی ہیں۔

تاوقتیکہ کوئی ازخود کھڑا ہو کر، ان تحقیقاتی رپورٹوں کو معنیٰ فراہم کرنے پر تیار نہ ہوجائے، ماضی کے پیشِ نظر اس بات کے بہت کم امکانات روشن ہیں کہ زیرِ سماعت قیدیوں کے فرار کو روکنے کے لیے جو رسمی اور واضح تجاویز پیش کی گئی ہیں، ان پر کچھ عمل ہوسکے گا۔

انگریزی میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں