اسلام آباد: قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں کی نمائندگی میں اضافے کے لیے آئین میں ترمیم کے دو ایک جیسے بل گزشتہ روز منگل کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں بحث کے لیے پیش کیے گئے، جن میں سے ایک میں پولیس کی جانب سے غلط مقدمہ درج کرنے پر سخت ترین سزا دینے کی بھی تجویز پیش کی گئی ہے۔

جماعتِ اسلامی (جے آئی) کے اراکین کی جانب سے بھی ایک بل پیش کیا گیا، جس میں حکومت کو یونیورسٹی، اسکولز اور کالجز میں قرآن کا ترجمہ، حفظ اور تجویدالقرآن کو لازمی مضامین بنانے کا پابند کیا گیا۔

حکومت کی جانب سے مخالفت نہ کرنے پر اسپیکر نے تمام بلوں کو متعقلہ قائمہ کمیٹی کو ارسال کردیا۔

پہلے آئینی ترمیمی بل میں چاروں اہم جماعتوں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے اقلیتی اراکین نے قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلموں کے لیے قائم مخصوص نشستوں کی تعداد میں اضافے کے لیے کوشش کی ہے۔

ایم کیو ایم کے اراکین نے بعد میں اسی طرح کا ایک اور بل بھی پیش کیا جس میں کسی قسم کی لفظی تبدیلی نہیں کی گئی تھی۔ ایم کیو ایم کے اقلیتی ممبر سنجے پروانی نے دونوں بلوں پر اپنے دستخط کیے۔

ان بلوں کے ذریعے اراکین نے آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کے تحت ترمیم کی تجویز کی، جو ملک میں قانون سازوں کی تقسیم کے بارے میں ہے۔

اگر یہ بل منظور ہوجاتے ہیں تو اس کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوگی جس سے قومی اسمبلی میں غیر مسلم اراکین کی نشستوں کی تعداد دس سے بڑھ کر 15 اور اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد 342 سے بڑھ کر 347 ہوجائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں