وہیں کے وہیں

اپ ڈیٹ 30 جنوری 2014
منطقی نتیجے کے بجائے پھر ابہام، وزیراعظم کی ٹیم پرانی مخلصانہ کوششوں کا نیا اظہار ہے۔ 
فائل فوٹو۔۔۔
منطقی نتیجے کے بجائے پھر ابہام، وزیراعظم کی ٹیم پرانی مخلصانہ کوششوں کا نیا اظہار ہے۔ فائل فوٹو۔۔۔

غیرمتوقع طور پر، وزیرِ اعظم نواز شریف گذشتہ روز قومی اسمبلی تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے ایوان کو، دہشتگردی اور عسکریت پسندی سے نمٹنے کے واسطے، حکومتی منصوبہ بندی سے آگاہ کیا۔ انہوں نے ایوان سے خطاب کیا، جس نے حالیہ دنوں میں تیزی سے بڑھتی اُن قیاس آرائیوں کا خاتمہ کردیا کہ حکومت واحد منطقی نتیجے تک پہنچ چکی: ٹی ٹی پی کے خلاف قوت استعمال کرنے کے حق میں مذاکرات کا آپشن ختم کردیا گیا۔

رازداری کی اصطلاح کو نئے معنیٰ بخشنے والے کم سخن وزیرِ اعظم نے بدستور ایک کارڈ اپنے سینے سے لگا رکھا تھا اور کسی کو علم نہ ہوسکا کہ نواز شریف عملی طور پرایسا گھماؤ دار سرپرائز دیں گے جو کسی نے نہ دیکھا ہو۔ وزیرِ اعظم نے ٹی ٹی پی کو آخری موقع دینے کے لیے حکومت کی طرف سے چار رکنی مذاکراتی ٹیم کا اعلان کردیا۔

اگر یہ فیصلہ بذاتِ خود حیران کُن ہے تو اس کی تفصیلات بھی کیا کم تعجب خیز ہیں: ایسا کچھ بھی موجود نہیں۔

کوئی حتمی تاریخ نہیں، کوئی سرخ لکیر نہیں، کون پہنچ پائے گا یہ بھی کچھ واضح نہیں، چار رکنی کمیٹی کا مینڈٹ کیا ہوگا، اس کی بھی کوئی وضاحت نہیں۔ عملی طور پر یہ حکومت کی پرانی اور تھکی ماندہ مخلصانہ کوشش کے، نئے اظہار سے زیادہ کچھ اور نہیں۔

جناب شریف کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے دوران ٹی ٹی پی کے حملے ہرگز قبول نہیں لیکن ذرا ستمبر کے بعد سے ہونے والے حملوں کو دیکھیے، وزیرِ اعظم بھی اپنی تقریر میں ان حملوں کا تذکرہ کرتے رہے، اب ٹی ٹی پی کیوں کر یہ سمجھے کہ وزیرِ اعظم نے جو کچھ کہا، اس میں سنجیدگی ہے؟

اگر گذشتہ ستمبر میں آل پارٹیز کانفرنس کی جانب سے مذاکرات کی توثیق بھی ٹی ٹی پی کی پُرتشدد کارروائیوں کو اب تک نہ رکوا سکی تو کیا حکومت کے ان نئے اقدامات سے، آنے والے دنوں میں طالبان کے مزید چند یا اور زیادہ ، حملوں کا سلسلہ تھم جائے گا؟

عسکریت پسندی کے خلاف حکومت کی تازہ ترین حکمتِ عملی بھی، گذشتہ چند ماہ سے جاری ان کے مخمصے جیسی ہی کوئی شے لگتی ہے۔ اس سے پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کے طریقہ کار، سیاست اور فیصلہ سازی پر بھی چند بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھتے ہیں۔

حکومت خود اعتراف کرچکی کہ اس معاملے پر پالیسی تحفظات ہیں لیکن اس کے باوجود جس چار رکنی ٹیم کو حکومتی اعانت کا ہدف سونپا گیا، ان میں کوئی ایک سیاستدان بھی شامل نہیں۔ یہ بات قابلِ ذکرہے، اگر سمجھیں تو یہ مجموعی سیاسی طبقے پر پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کا عدم اعتماد ہے۔

اور خود پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کے ان ارکان اسمبلی کی رائے کا کیا ہوا، جنہیں رواں ہفتے کے آغاز میں پارلیمانی پارٹی کے خصوصی اجلاس میں، دہشتگردی کے خطرات سے نمٹنے کے اقدامات پر، مشاورت کی خاطر طلب کیا گیا تھا؟

نہ صرف یہ کہ مسلم لیگ ۔ نون کے ارکانِ اسمبلی نے بڑے پیمانے پر جس رائے کا اظہار کیا، اسے نظر انداز کردیا گیا بلکہ قیادت کی جانب سے انہیں اس پر بھی لاعلم رکھا گیا کہ وہ ایک بار پھر مذاکرات کے آپشن کو ہی تقویت بخشنے جارہے ہیں۔

ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکراتی عمل کی خاطر جناب شریف کے اس وعدے میں، بمشکل ہی شفافیت کی پیشگوئی جاسکتی ہے۔

انگریزی میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں