ٹی ٹی پی کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی کے لیے سیکیورٹی کی پیشکش

03 فروری 2014
ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا کہ طالبان کی سیاسی شوریٰ اپنی مذاکراتی کمیٹی کے لیے نامزد کردہ پانچ اراکین کی رہنمائی کرے گی۔ —. فائل فوٹو
ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا کہ طالبان کی سیاسی شوریٰ اپنی مذاکراتی کمیٹی کے لیے نامزد کردہ پانچ اراکین کی رہنمائی کرے گی۔ —. فائل فوٹو

پشاور: کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے مذاکراتی کمیٹیوں کے اراکین کو اپنے زیرِ اثر علاقوں میں سیکیورٹی اور تحفظ فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔

اتوار کو یہاں میڈیا کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا کہ طالبان کی سیاسی شوریٰ اپنی مذاکراتی کمیٹی کے لیے نامزد کردہ پانچ اراکین کی رہنمائی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ طالبان مخلصانہ طور پر حکومت کے ساتھ امن مذاکرات چاہتے ہیں۔

یہ کمیٹی مولانا سمیع الحق، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز، جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے سربراہ پروفیسر ابراہیم خان اور جے یو آئی ایف کے سابق رکن صوبائی اسمبلی کفایت اللہ پر مشتمل ہے۔

ٹی ٹی پی نے اپنی مذاکراتی کمیٹی میں مختلف سیاسی رجحان رکھنے والے رہنماؤں کو شامل کیا ہے۔ جمیعت العلمائے اسلام کے خود اپنے دھڑے کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، عمران خان کے سخت مخالف ہیں، جبکہ جے یو آئی ایس کے سربراہ مولانا سمیع الحق مولانا فضل کے کٹر حریف ہیں، اسی طرح جماعت اسلامی کے دل میں مولانا فضل الرحمان کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔

ٹی ٹی پی کے ترجمان نے کہا کہ حکومت کو اپنے پیشرووں کی غلطیاں نہیں دہرانی چاہیئیں، جب مذاکرات کو ایک ہتھیار کے طور پر طالبان کے خلاف استعمال کیا گیا تھا، اور یہی وجہ ہے کہ امن بحال نہیں کیا جاسکا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کی مرکزی شوریٰ نے مشاورت کے بعد ایک کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ کیا تھا کہ جو حکومتی ٹیم کے ساتھ باآسانی رابطہ کرسکتی ہے اور اس کے علاوہ طالبان کانکتۂ نظر بہتر انداز میں پیش کرسکتی ہے۔

اس سے قبل مولانا سمیع الحق نے پی ٹی آئی کے سربراہ سے رابطہ کیا اور ان پر زور دیا کہ وہ طالبان کی پیشکش قبول کرلیں۔

مولانا سمیع الحق کے بڑے بیٹے مولانا حامد الحق کے مطابق انہوں نے خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلٰی پرویز خٹک سے بھی بات کی اور ان سے درخواست کی کہ وہ عمران خان اس کمیٹی میں شمولیت پر قائل کریں۔

مولانا حامد نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ امن کے لیےجدوجہد کی تھی، انہوں نے امریکی ڈرون حملوں کے خلاف اور طالبان کی حمایت کے لیے ایک احتجاج شروع کیا تھا، انہیں چاہیٔے کہ وہ اس امن عمل میں حصہ لیں۔

انہوں نے مولانا سمیع الحق کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ”عمران خان کو کمیٹی میں شمولیت اختیار کرنی چاہیٔے اور امن کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرنے چاہیٔے۔“

انہوں نے مزید کہا کہ مولانا سمیع الحق نے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین سے بھی بات کی تھی، دونوں ٹیموں کا ایک باضابطہ اجلاس تین دنوں میں منعقد ہونے کا امکان ہے۔

امجد محمود، لاہور سے:

پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اعجاز چوہدری کے مطابق صوبے کی مرکزی کمیٹی کے اراکین نے اپنے سربراہ کے مذاکرات میں عملی کردار ادا کرنے کی مخالفت کریں گے، اس کے نتیجے میں قیادت کا مؤقف اور اس کی قدوقامت کمزورپڑ سکتی ہے۔

پی ٹی آئی کے ایک دوسرے رہنما نے الزام عائد کیا کہ طالبان نے اس کمیٹی میں عمران خان کا نام حکومتی ہدایت پر شامل کیا ہے، بالفرض اگر مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں تو اس صورت میں فوجی آپریشن کے لیے پارٹی کی حمایت حاصل کی جاسکے۔

جماعت اسلامی کے نائب امیر ڈاکٹر فرید پراچہ نے کہا ”ہم طالبان کے نمائندے نہیں ہیں۔ہم حکام اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان صرف نگران اور مددگار کے طور پر کام کریں گے اور ہمارا کردار حکومت کی جانب سے باضابطہ طور پر تسلیم کیا جانا چاہیٔے۔“

انہوں نے کہا کہ اگر اس سے کسی دوسرے کردار کی توقع کی گئی تو جماعت اپنی پیشکش پر نظرثانی کرے گی۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Feb 03, 2014 10:59pm
مزاکرات‏ ‏کی‏ ‏کامیابی‏ ‏اور‏ ‏ناکامی‏ ‏کی‏ ‏کنجی‏‏ ‏پنڈی‏ ‏میں‏ ‏ھے‏ ‏طالبان‏ ‏نے‏ ‏سیاسی‏ ‏جماعتوں‏ ‏کے‏ ‏نام‏‏‏ ‏اپنی ‏مزاکرات‏ی‏ ‏ٹیم‏ ‏میں‏ ‏ڈال‏ ‏کر‏ ‏سب‏ ‏کو‏ ‏حیران‏ ‏کردیا‏ ‏اور‏ ‏ساتھ‏ ‏ھی ‏اپنی‏ ‏عیر‏ ‏موجودگی‏ ‏کا‏ ‏اعلان‏ ‏یا‏ ‏اعتراف‏ ‏کردیا‏ اور‏ ‏دوسری‏‏ ‏طرف ‏اپنی‏ ‏عمل‏ ‏داری‏ ‏والے‏ ‏علاقے‏ ‏زگر‏ ‏بھی‏ ‏کیا‏ ‏ھے‏ ‏‏ ‏بحرحال‏ ‏اب‏ ‏مزاکرات‏ ‏شروع‏ ‏ھونے‏ ‏کا‏ ‏انتظار‏ ‏ھے‏ ‏کہ‏ ‏کیا‏ ‏ھوگا‏ ‏جو‏ ‏کچھ‏ ‏بھی‏ ‏ھو‏ ‏ھم‏ ‏صرف‏ ‏امن‏ ‏چاھتے‏ ‏ھیں‏ ‏ھر‏ ‏صورت‏ ‏میں‏ ‏ لیکن‏ ‏یہ‏ ‏بات‏ ‏درست‏ ‏کہ‏ ‏عمران‏ ‏بھائی‏ ‏کے‏ ‏ساتھ‏ ‏ہاتھ‏ ‏ہوچکا‏ ‏ھے‏ ‏