سینیٹ: آج ججوں کی دوہری شہریت کا معاملہ زیرِ بحث آئے گا

03 فروری 2014
سینیٹ میں قائدِ ایوان راجہ ظفرالحق نے ڈان کو بتایا کہ حکومت کئی درخواستوں کے باوجود ججوں کی دہری شہریت کی تفصیلات حاصل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ —. فائل فوٹو
سینیٹ میں قائدِ ایوان راجہ ظفرالحق نے ڈان کو بتایا کہ حکومت کئی درخواستوں کے باوجود ججوں کی دہری شہریت کی تفصیلات حاصل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: آج بروز پیر تین فروری کو سینیٹ میں ججوں کی دوہری شہریت کے مسئلے کو اُٹھایا جائے گا، اس لیے کہ حکومت اعلٰی عدلیہ سے ان کے بارے میں تفصیلات حاصل کرنے میں حکومت کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔

وزیرِ قانون کا کہنا ہے کہ حال ہی میں دہری شہریت کے حامل ججوں کے نام حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو تین خط تحریر کیے گئے تھے، لیکن اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔

سینیٹ میں قائدِ ایوان راجہ ظفرالحق نے ڈان کو بتایا کہ حکومت کئی درخواستوں کے باوجود ججوں کی دہری شہریت کی تفصیلات حاصل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔

راجہ ظفرالحق کی درخواست پر سینیٹ کے چیئرمین نے 13 جنوری کو پیش کی گئی ایک قرارداد کو زیرِ التوا ڈال دیا تھا، جس میں حکومت سے کہا گیا تھا کہ وہ دہری شہریت کے حامل ججوں کے نام شایع کرے۔

راجہ ظفرالحق نے عدلیہ سے معلومات جمع کرنے کے لیے مزید ایک موقع طلب کیا تھا۔ تقریباً دو مہینے پہلے ایسی ہی ایک درخواست وزیرِ قانون کی جانب سے کی گئی تھی۔

یہ مسئلہ گزشتہ ایک سال سے ایوانِ بالا میں زیرِ بحث چلا آرہا ہے۔ پیپلزپارٹی کی پچھلی حکومت بھی اعلٰی عدلیہ سے مطلوبہ معلومات حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔

اس سوال پر کہ کیا کوئی جج دوہری شہریت رکھتا ہے، سپریم کورٹ کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب موصول نہ ہونے پر پیپلزپارٹی کے سینیٹرز نے اس مسئلے پر گزشتہ سال مارچ میں ایک پارلیمانی بحث شروع کرنے کی درخواست کی تھی، جس کے لیے چیئرمین نے اجازت دے دی تھی۔

پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر اور چوہدری اعتزاز احسن کی جانب سے پیش کی گئی ایک مشترکہ تحریک پر ایوان میں یہ بحث شروع ہوئی تھی۔

اس سوال پر کہ کیا اعلٰی عدلیہ کے ججز بھی دوہری شہریت رکھتے ہیں ، فرحت اللہ خان بابر کی جانب سے دیے گئے جواب پر یہ معاملہ دومرتبہ ایوان میں سامنے آیا تھا،پہلی مرتبہ دسمبر 2012ء کے دوران اور پھر گزشتہ سال فروری میں۔

اس وقت کے وزیرِ قانون فاروق نائیک نے ایوان کو مطلع کیا تھا کہ سپریم کورٹ نے اپنے پہلے جواب کو دوہرایا تھا کہ نہ تو آئین اور نہ ہی کوڈ آف کنڈکٹ میں ججوں کے لیے یہ قانون مقرر ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والے فرد کو ایک جج بننے سے روکا جاسکتا ہے۔

وزیرِ قانون نے کہا کہ صرف وفاقی شرعی عدالت کا جواب سامنے آیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ نہ تو چیف جسٹس اور نہ ہی اس عدالت کا کوئی جج دوہری شہریت رکھتا ہے۔

اس جواب کا نوٹس لیتے ہوئے فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ایک واضح یقین دہانی ضروری تھی کہ اعلٰی عدلیہ میں کوئی جج دوہری شہریت کا حامل نہیں ہے، چاہے آئین اس کی اجازت دیتا ہے یا نہیں۔

حکومت کی تبدیلی کے بعد پیپلزپارٹی کے سینیٹروں نے اس مسئلے کو دوبارہ اُٹھایا اورفرحت اللہ بابر نے ایک قرارداد جمع کرائی، جس میں حکومت پر زور دیا گیا تھا کہ وہ دوہری شہریت کے حامل ججوں کے نام شایع کرے۔

اس بحث کے دوران چیئرمین نے خود بھی یہ سوال کیا تھا کہ حکومت یہ وضاحت کرے کہ اس معلومات کی فراہمی سے کس طرح عدلیہ کی آزادی میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔

انہوں نے اراکین سے بھی کہا تھا کہ وہ ایسی حکمت عملی تجویز کریں جس کے ذریعے یہ معلومات عدلیہ سے حاصل کی جاسکیں۔

آج بروز پیر فرحت اللہ بابر کی قرارداد سینیٹ کا سرفہرست ایجنڈا ہوگی۔

مسلم لیگ نون کے راجہ ظفرالحق نے کہا کہ مستقبل کے لائحہ عمل کا فیصلہ ایوان کو کرنا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اسے ملک کے دو اداروں کے درمیان محاذ آرائی کا سبب نہیں بننا چاہیٔے۔

پیپلزپارٹی کے رضا ربّانی اور صغریٰ امام کی جانب سے دہری شہریت رکھنے والے ججوں کو روکنے کے لیے ایک بل پیش کیا گیا تھا۔ لیکن یہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون اور انصاف کے سامنے زیرِ التوا پڑاہے۔

تبصرے (0) بند ہیں