دنیا بھر میں ایسے ادب کی کوئی کمی نہیں جنہیں دوران قید تخلیق کیا گیا اور جو بعد میں شہ پارے کہلائے۔

مثلاً روم کے فلسفی بوئیتھیس کو تیھوڈارک دے گریٹ نے غداری کے الزامات لگاتے ہوئے جیل میں ڈال دیا تھا۔

سزائے موت سے پہلے بوئیتھیس نے پانچ کتابوں پر مشتمل 'کونسلیشن آف فلاسفی' جیسا عظیم ادب تخلیق کیا، جو ان کی موت کے بعد نو صدیوں تک دنیا پر اثر انداز ہوتا رہا۔

مارکو پولو نے جیل میں ساتھی قیدی کو اپنی حیران کن مہمات کے بارے میں تفصیل سے بتایا، وہ قیدی ان کی باتیں ساتھ ساتھ لکھتا گیا۔

بعد میں ان مہمات کی بازگشت پھیلی اور چین کی پورپ میں سنجیدہ دلچسپی لینےکا سبب بنی۔

جب ہسپانوی ناول نگار کیرونٹس کو بطور ٹیکس افسر فراڈ کرنے کے الزام میں گرفتاری کیا گیا تو انہوں نے اپنی مشہور تصنیف 'ڈان کوئگزوٹ' پر کام شروع کیا۔

سن 1605 میں جب ان کی تخلیق کا پہلا حصہ شائع ہوا تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔اسی طرح سر والٹر سکاٹ ریلیگ نے لندن ٹاور میں گیارہ سالہ اسیری میں 'ہسٹری آف ورلڈ' تحریر کی۔

سن 1660 میں 'بغیر لائسنس تبلیغ' کرنے والے جان بنیان نے اپنی سوانح عمری قید کے دوران ہی لکھی۔ جب انہیں دوبارہ 1675میں گرفتار کیا گیا تو انہوں نے شہرہ آفاق ' پلگرمز پراگرس' تخلیق کیا۔

ایک پیچیدہ مقدمہ کا سامنا کرنے والے آسکر وائلڈ نے بھی دو سال جیل میں گزارے۔ اس دوران انہوں نے 'ڈی پروفنڈی' لکھا، جسے ایک شاہکار ادب کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

اسی طرح قید کے دوران لکھے جانے والے عظیم ادب کی بڑی مثالیں موجود ہیں۔

دنیا کی دوسری زبانوں مثلا فرانسیسی، روسی، عربی اور فارسی میں بھی ایسے ادب کی کوئی کمی نہیں۔

اردو ادب میں بھی ہمیں بہت سا ایسا ادب ملتا ہے جو دورانِ قید تخلیق ہوا۔

اس حوالے سے ہم غالب سے شروعات کرتے ہیں،جنھیں 1847 میں جوئے کا اڈا چلانے کے الزام میں چھ مہینوں کے لیے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔

بعد میں انہیں تین مہینے سزا کاٹنے پر رہائی ملی۔

اپنی قید کے دوران غالب نے 84 شعروں پر مشتمل فارسی میں ایک نظم تیار کی جسے غلام رسول مہر نے لکھا۔

اس عرصے میں انہوں نے کم از کم ایک اردو شعر بھی لکھا جس کا محققین اکثر ذکر کرتے رہے ہیں۔

آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو 1857 میں 'برطانیہ کے خلاف بغاوت' کی کمان کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

جبکہ درحقیقت انہوں نے اپنے ملک اور لوگوں کو غیر ملکی غاضبانہ قوتوں سے بچانے کی کوشش کی تھی۔

ظفر اپنی ذات میں خود ایک شاعر تھے اور خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے قید میں شاعری کی۔

ہم یقین سے تو نہیں بتا سکتے کہ ان کے کون سے شعر قید میں لکھے گئے، لیکن قید کی وجہ سے ان کی کچھ غزلوں میں مایوسی کی جھلک ضرور نظر آتی ہے۔

علامہ فیض الحق خیر آبادی کو برطانیہ کے خلاف جہاد کرنے کے حق میں فتویٰ دینے پر انڈیمان کے جزائر بھیج دیا گیا تھا۔

اس دوران، انہوں نے 1857 میں جنگ آزادی کی تاریخ پر عربی میں 'صورت الہندیہ' لکھی۔

بعد میں عبدالشاہد خان شیروانی نے اس کا اردو میں ترجمہ اور 'باغیٔ ہندوستان' کے نام سے شائع کیا۔

انڈیمان جزائر پر موجود قیدیوں میں جعفر تھانیسری کا نام بھی شامل ہے، جنہوں نے ' نصائح جعفری' پر کام شروع کیا، تاہم حکام نے ان کا مسودہ ضبط کر لیا۔

بعد میں انہوں نے دورانِ قید دو کتابیں لکھیں جن میں سے ایک پورٹ بلیئر کے آئین کا اردو ترجمہ تھا جبکہ دوسری 'تاریخِ پورٹ بلیئر' عرف 'تاریخِ عجیب' تھی۔

ان کی مشہور سوانح عمری 'کالا پانی' دراصل 'تاریخِ عجیب' کا سیکوئل ہی تھی۔

سن 1908 میں مصر پر برطانوی پالیسی کے خلاف تنقیدی مضمون لکھنے پر حسرت موہانی کو دو سال قید بامشقت دی گئی۔

اس دوران انہوں نے کئی غزلیں اور نظمیں لکھیں جو ان کے مجموعہ کلام کا حصہ ہیں۔

مولانا محمد علی جوہر کو 1921 ،کراچی میں ایک باغیانہ تقریر کرنے پر گرفتار کیا گیا۔

اس شاعر، سیاست دان اور صحافی نے اسیری کے دنوں میں نظمیں لکھنے کے علاوہ اپنی سوانح عمری 'مائی لائف: اے فریگمنٹ' بھی لکھی۔

جوہر کے گرفتار ہونے کے بعد، مولانا عبدالکلام آزاد کو بھی جوہر کے نقطہ نظر کی حمایت کرنے پر کلکتہ کے علی پور جیل میں بند کر دیا گیا، جہاں ان کے ساتھ 'آزاد ہند' کے ایڈیٹر عبدالرزاق ملیح آبادی بھی موجود تھے۔

ملیح آبادی کے بے حد اصرار پر آزاد نے انہیں اپنی سوانح عمری لکھوائی، جسے بعد میں 'عبدالکلام کی کہانی خود ان کی زبانی' کے نام سے شائع کیا گیا۔

سن 1942 میں آزاد کو 'انڈیا چھوڑ مہم' میں حصہ لینے پر دوبارہ پکڑ لیا گیا۔ اس مرتبہ انہیں احمد نگر جیل بھیجا گیا جہاں انہوں نے حبیب الرحمان کے نام اپنے مشہور خطوط تحریر کیے۔

یہ خط 'غبارِ خاطر' اور 'کاروانِ خیال' کے نام سے شائع ہوئے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ قرآن پاک پر آزاد کے تبصرہ 'ترجمہ القرآن' کا کچھ حصہ بھی دوران قید ہی لکھا گیا۔

مجلسِ احرار کے ایک رہنما چوہدری افضل نے اپنی مشہور کتاب 'زندگی' جیل میں لکھی۔ حضرت محمد (صلی اللہ وعلیہ وسلم) کی زندگی پر ان کی کتاب 'محبوبِ خدا' بھی ملتان اور راولپنڈی کی جیلوں میں تالیف ہوئی۔

برطانوی حکام کی جانب سے بار بار قید میں ڈالے جانے کی وجہ سے ظفر علی خان نے کئی نظمیں جیل کی سلاخیوں کے پیچھے ہی لکھیں۔

ان کا مجموعہ کلام 'حبسیات' مکمل طور پر جیل میں لکھا گیا۔

اسی طرح فیض احمد فیض کی 'دشتِ صبا' کا بڑا حصہ جیل میں تخلیق ہوا۔ ان کا تیسرا مجموعہ کلام 'زنداں نامہ' قید کی مرہون منت تھا۔

احمد ندیم قاسمی، حبیب جالب، علی سردار جعفری اور نعیم صدیقی نے بھی اپنی کئی نظمیں جیل میں لکھیں۔

ادیبوں اور شاعروں کے جیل میں تحریر ہونے والے خطوط بڑے تعداد میں دوبارہ شائع کیے جا چکے ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ پابندِ سلاسل کے دوران تخلیق ہونے والے ادب پر ہمارے ہاں بہت کم تحقیق ہوئی ہے۔

ہماری یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور تحقیق کرنے والے طالب علم اہم موضوعات کو نظر انداز کرتے ہوئے تیسرے درجے کے شاعروں اور، 'لیجنڈ' خیال کی جانے والی موجودہ شخصیات پر بے کار اور بھاری بھرکم نام نہاد ریسرچ پیپر لکھنے میں مصروف ہیں۔

عبدالمجید قریشی نے اپنی کتاب 'کتابیں ہیں چمن اپنا' (ہمدرد، 1992) میں اردو زبان میں قید کے دوران لکھے گئے ادب کے حوالے سے ایک بڑا دلچسپ مضمون شامل کیا تھا، جس کا میں نے اس مضمون لکھنے کے دوران بے حد فائدہ اٹھایا۔

اسی حوالے سے صحافی اور مصنف، فہیم انصاری نے تقریباً بیس سال پہلے 'موضوعاتِ شاعری: قید و بند' کے نام سے ایک مختصر کتاب لکھی۔

ان کے علاوہ ہمیں زیادہ کام دیکھنے کو نہیں ملتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں