مذاکرات کیوں کریں؟

07 فروری 2014
ٹی ٹی پی مذاکرات کی خواہشمند مگر حملے پھر بھی جاری، تو ان سے بات کیوں کریں۔ فائل فوٹو۔۔۔
ٹی ٹی پی مذاکرات کی خواہشمند مگر حملے پھر بھی جاری، تو ان سے بات کیوں کریں۔ فائل فوٹو۔۔۔

رواں ہفتے پشاور دو بار حملوں کا نشانہ بن چکا، واضح طور پر یہ حملے دہشت گردوں نے کیے، یہ بھی واضح ہے کہ مذاکرات کے آپشن پر فوری عمل کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے حملے کیے گئے۔

مکمل طور پر حملوں کی مذمت کیے بغیر، ٹی ٹی پی نے خود کو ان سے علیحدہ رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے، یہ ظاہر کیا جیسے وہ ریاست اور شہریوں کو نشانہ بنانے کے بجائے مذاکرات کے اہداف پر غور کررہی ہے۔

علاوہ ازیں، حکومت کے سامنے ناگزیر سوال ہے: اگر مذاکرات شروع کیے جانے پر بھی، پُرتشدد حملے تواتر سے جاری رہتے ہیں تو پھر مذاکرات کس مقصد کی خاطر کیے جارہے ہیں؟ یہاں تین امکانات ہیں۔

اول، حقیقت میں ٹی ٹی پی کا ایک ذیلی گروہ بدستور جاری ان حملوں کا ذمہ دار ہے جبکہ خود ٹی ٹی پی کو اپنی چھتری تلے موجود دیگر تنظیموں پر کوئی اختیار حاصل نہیں۔ ایسی صورت میں، ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں موقف کیا ہوگا؟

دوم، ٹی ٹی پی کی چھتری سے باہر موجود ایک یا ایک سے زائد گروہ نے اپنی پُرتشدد مہم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور ٹی ٹی پی ان کا کچھ نہیں کرسکتی۔ تو ایسے میں قیامِ امن کی کوشش کی خاطر ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا کیا فائدہ، کیا یہ منطق نہیں کہ سب سے پہلے ان دیگر گروہ یا گروہوں سے بات کی جائے؟

سوم، ٹی ٹی پی سے باہر موجود عناصر بدستور حملے کیے جارہے ہیں جبکہ ٹی ٹی پی مذاکراتی ترجیح سے انہیں ہم آہنگ کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے پر تیار نہیں۔ اس سے تو یہی تجویز ہوتا ہے کہ حکومت جس امن کی خواہاں اور اس کے لیے کوشش کررہی ہے، اس میں ٹی ٹی پی پر بطور امن شراکت دار بمشکل ہی اعتماد کیا جاسکتا ہے۔

آپ چاہے جو بھی آپشن اختیار کرلیں، حکومت مذاکرات سے جو امیدیں وابستہ کیے بیٹھی ہے، تواتر سے جاری تشدد کے سلسلے میں یہ توقعات پوری ہوتی نظر نہیں آتیں۔ نہ ہی حالیہ تشدد کا یہ رجحان نیا ہے۔

گذشتہ ستمبر میں جب آل پارٹیز کانفرنس نے حکومت کے واسطے، مذاکرات بطور پہلے آپشن کی توثیق کی تھی، اس کے بعد بھی تواتر سے اسی طرح کے تباہ کُن حملے کیے گئے، اُس وقت بھی معمہ خیز حملوں پر اسی طرح کا ابہام موجود تھا۔

اس طرح اب تک، حکومت کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ ایسے عسکریت پسند اور دہشت گرد جو ریاست سے بات کرنا چاہتے ہیں، پاکستان میں داخلی استحکام اور امن کی خاطرریاست ان سے مذاکرات پر تیار ہے لیکن ٹی ٹی پی کے ارادوں اور نیک نیتی کی توثیق کے لیے حکومت نے عملی طور پر کچھ نہیں کیا، اس کے بجائے وہ کسی تصفیے کی خاطر مذاکرات کے لیے ٹی ٹی پی کے الفاظ پکڑے دکھائی دیتی ہے۔

اگر مذاکرات کے معنیٰ عوام اور ریاست کی بھاری قیمت پر ملک کو لفظوں کی پہیلی میں گھسیٹنا نہیں تو پھر حکومت یہ واضح کیوں نہیں کرتی کہ وہ عسکریت پسندی کے صرف ایک طبقے سے ہی بات کرے گی؟

انگریزی میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں