کیسی معاشی ترقی؟

12 فروری 2014
معاشی پالیسیوں کی تعریف لیکن مذاکرات کے لیے آئی ایم ایف کا پاکستان آنے سے انکار۔  فائل فوٹو۔۔۔۔
معاشی پالیسیوں کی تعریف لیکن مذاکرات کے لیے آئی ایم ایف کا پاکستان آنے سے انکار۔ فائل فوٹو۔۔۔۔

نواز شریف حکومت کے لیے یہ جشن منانے کا وقت ہے۔ آئی ایم ایف نے ایک بار پھر ان کی معاشی پالیسیوں کے حق میں ووٹ دیتے ہوئے چھ اعشاریہ سات ارب ڈالر پر مشتمل قرض کی تیسری قسط آئندہ ماہ جاری کرنے کی یقین دہانی کی ہے۔

قرض پروگرام کے دوسرے جائزے میں آئی ایم ایف نے اسلام آباد کے مجموعی معاشی اقدامات کو حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے، میکرواکنامک استحکام اور معاشی شرح نمو کی بحالی پر زور دیا ہے۔

بجلی کی قلت میں کمی اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر کے پاکستان شرح نمو کے موجودہ مالیاتی تخمینے کو دو اعشاریہ آٹھ فیصد سے تین اعشاریہ ایک فیصد تک لاسکتا ہے۔ بصد خوشی یہ تحریر کیا گیا کہ اسلام آباد نے کارکردگی کی لگ بھگ تمام شرائط پوری کیں اور اس کا اصلاحاتی پروگرام وسیع معنوں میں درست راہ پر آگے بڑھ رہا ہے۔

بجٹ خسارہ آٹھ فیصد سے کم کر ساڑھے تین فیصد پر لانے کی خاطر، خلا پُر کرنے کے لیے بجلی پر دی جانے والی سبسڈی میں کٹوتی اور ٹیکس بڑھانے کے اقدامات پر، آئی ایم ایف نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اگرچہ ابھی حکومت کو سرکاری شعبے کی کسی کمپنی کو فروخت کے لیے پیش کرنا باقی ہے تاہم حکومت کے نجکاری ایجنڈے کو بھی درست قرار دے دیا گیا۔

وسیع پیمانے پر یہی توقع تھی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کامیاب رہیں گے۔ ایک دو معاملات جو مذاکرات میں ممکنہ رکاوٹ کا باعث بن سکتے تھے، انہیں وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی دبئی روانگی سے قبل ہی دور کرلیا گیا تھا۔

اسٹیٹ بینک کے گورنر کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا جبکہ دو سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو دی جانے والی سبسڈی بھی بنا پیشگی اعلان کے، ختم کردی گئی تھی۔

بجلی پر دی جانے والی سبسڈی میں واضح کمی اور بلواسطہ ٹیکسوں کے نفاذ سے، کم آمدنی والے پاکستانی شہریوں کی اکثریت کی زندگی پر 'مستحکم پالیسیوں' کے مرتب سخت اثرات سے، آئی ایم ایف بدستور لاتعلق ہے۔ اسے ایک بے روزگار کی 'معاشی بحالی سے بھی کوئی سروکار نہیں۔

بہرحال، یہ آئی ایم ایف کا کام نہیں کہ جس ملک کو قرض دے، اس کے لوگوں کی دیکھ بھال بھی کرتا پھرے۔ یہ تو حکومت کا کام ہے کہ وہ پالیسی بنانے سے پہلے اپنے شہریوں کی حالت پر بھی نظر ڈالے۔

وہ حکومتیں جنہیں اپنے شہریوں کی فکر لاحق ہوتی ہے، وہ پالیسی بناتے ہوئے یہ بات مدِنظر رکھتی ہیں کہ معاشی استحکام کا زیادہ تر بوجھ دولتمندوں پر پڑے، نیز کم اور وسطی سطح پر آمدنی پانے والوں اس کے اثرات سے محفوظ رکھا جائے لیکن پاکستان کے مالیاتی کرتا دھرتا سب کچھ اس کے برعکس کرتے ہیں۔

اقتصادی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے جس بحالی کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا، وہ کہیں پر دکھائی نہیں دے رہی۔ افراطِ زر کو بجٹ میں جس شرح تک محدود رکھنے کا تخمینہ لگایا گیا تھا، یہ اس سے کہیں زیادہ بڑھ چکا۔ جہاں تک بجٹ خسارے کی بات ہے تو اسٹیٹ بنک کے مطابق یہ ہدف حاصل نہیں ہوپائے گا۔

ادائیگیوں کے توازن پر دباؤ 'آنے والے مہینوں میں بھی برقرار' رہنے کا امکان ہے، جیسا کہ خود حکومت اعتراف کرچکی تھی، بجٹ میں ایک سہ ماہی یا ڈیڑھ ارب ڈالر کی غیر ملکی امداد ظاہر کی گئی تھی، اس کا بھی بڑا حصہ آئی ایم ایف سے آنا تھا۔

مذاکرات کے لیے آئی ایم ایف وفد کے پاکستان آنے سے انکار نے بھی، ملک میں امن و امان کی صورتِ حال سے متعلق دنیا کو منفی پیغام بھیجا ہے۔ لہٰذا، ہم کس قسم کی بحالی کی بات کررہے ہیں؟

انگریزی میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں