افغان مہاجرین

12 فروری 2014
رجسٹرڈ پناہ گزینوں کے قیام میں دو سال کی توسیع پر خیبر پختون خواہ حکومت برہم ہے۔ فائل فوٹو۔۔۔
رجسٹرڈ پناہ گزینوں کے قیام میں دو سال کی توسیع پر خیبر پختون خواہ حکومت برہم ہے۔ فائل فوٹو۔۔۔

مشکلات میں گھرے مادرِ وطن میں امن تو کہیں پر دکھٓائی نہیں آتا، اسی لیے پاکستان میں رجسٹڑڈ سولہ لاکھ افغان مہاجرین کو بھی وطن لوٹنے کی کوئی جلدی نہیں۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد سن اُنیّس سو اُناسی کے دوران سوویت جارحیت کے بعد شروع ہوئی تھی، پھر اس کے بعد وہاں مسلسل عدم استحکام نے ان کی واپسی کو مشکل تر بنادیا۔

رواں برس کے اختتام تک افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد، وہاں عدم استحکام میں اضافے کی سیاسی پیشگوئی کی جارہی ہے اور یہ انخلا افغان خانہ جنگی میں شدت لانے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

افغان مہاجرین کی ایک (یا دو) نسلیں مکمل طور پر یہیں پلی بڑھی ہیں اور زیادہ تر معاشرتی دوراہے پر کھڑی ہیں، نیز یہ مہاجرین پاکستان کے کمزور انفرااسٹرکچر پر بھی بوجھ بن چکے۔

جیسا کہ اطلاعات ہیں کہ وفاقی حکومت نے مہاجرین کے قیام میں مزید دو برسوں کی توسیع تو کردی ہے لیکن ان کی واپسی کے بارے میں کوئی پروگرام نہیں دیا گیا، اس پرخیبر پختون خواہ کی انتظامیہ زیادہ برہم ہے۔

پناہ گزینوں کو جبری طور پر تنازعات کا شکار، اُن کے علاقوں میں واپس دھکیلنا تمام تر عالمی انسانی اقدار کے خلاف ہوگا لیکن ایسے میں کہ جب نظر آرہا ہو کہ یہ بدقسمت مہاجرین غیر معینہ مدت تک پاکستان میں ہی رہیں گے تو پھر بلاشبہ، اس مسئلے کے لیے کسی حل کی ضرورت تو ہے۔

تاہم، اس مسئلے کا کوئی قلیل المدت یا وسیع المدت حل تلاش کیے بغیر، افغان مہاجرین کو اُن ہی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے حالانکہ یہ پاکستان پر ایسا بوجھ ہیں جسے برداشت کرنے کے لیے ملک تاحال پوری طرح تیاریوں سے لیس نہیں ہوسکا۔

اس کے علاوہ، پاکستان میں غیررجسٹرڈ طور پر مقیم افغان مہاجرین کے مصدقہ اعدادو شمار بھی موجود نہیں ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں قانونی طور پر مقیم مہاجرین کے مقابلے میں، غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

جب ملک میں اتنی بڑی تعداد میں غیرملکی شہری مقیم ہوں تو ان کی وجہ سے امن و امان کے مسائل اور سماجی و معاشی اثرات جیسے سوالات کا اٹھنا اپنی جگہ درست ہے۔ شاید سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ گھر سے بے گھر، ان افغان مہاجرین کو دنیا نے بھلادیا ہے اور سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ خود اپنے بے شمار مسائل میں گھرا ہونے کے باوجود پاکستان ان کی میزبانی کیے جارہا ہے۔

اگرچہ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یواین ایچ سی آر) نے ان افغانوں کی بحالی اور وطن واپس بھجوانے کی کوششیں تو کی ہیں لیکن عالمی برادری کا رویہ اس سے مختلف ہے۔ مثال کے طور پر، جہاں تک افغان مہاجرین کا تعلق ہے تو اس ضمن میں انتظامات کے واسطے اقوامِ متحدہ کے متعلقہ ادارے کو درکار فنڈز کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔

اگرچہ عالمی طاقتوں بالخصوص وہ جو دہائیوں سے افغانستان کے معاملے میں شامل رہی ہیں، انہیں چاہیے کہ بے گھر افغان مہاجرین کو وطن واپس پہنچانے میں پاکستان کی مدد اور حمایت کریں، ساتھ ہی افغان حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ داخلی سطح پر امن و امان اور استحکام کو یقینی بنائے تاکہ یہ مہاجرین گھروں کو لوٹنے پر آمادہ ہوسکیں۔

انگریزی میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں