کراچی آپریشن کی بہتری کے لیے چار کمیٹیوں کی تشکیل

14 فروری 2014
وزیرداخلہ چوہدری نثار، گورنر ہاؤس میں گورنر سندھ عشرت العباد اور وزیراعلٰی سندھ قائم علی شاہ کے ساتھ ایک اجلاس میں شریک ہیں۔ —. فوٹو آن لائن
وزیرداخلہ چوہدری نثار، گورنر ہاؤس میں گورنر سندھ عشرت العباد اور وزیراعلٰی سندھ قائم علی شاہ کے ساتھ ایک اجلاس میں شریک ہیں۔ —. فوٹو آن لائن

کراچی: وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے جمعرات کو کہا کہ مجرموں کے خلاف جاری ٹارگٹڈ آپریشن کو بہتر بنانے کے لیے چار کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں، جو اصلاحی اقدامات کے لیے مشورے دیں گی، تاکہ اس کو متنازعہ بنے بغیر اس کے تیسرے مرحلے کو تیزی سے آگے بڑھایا جاسکے۔

قائدِ اعظم انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ وفاقی اور سندھ حکومت نے ملک کے کاروباری دارالحکومت میں امن کو بحال کرنے کا تہیّہ کر رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹیوں کی تفصیلات 18 فروری کو کراچی میں ان کے اگلے دورے پر عوام کے سامنے پیش کردی جائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کمیٹیاں سندھ حکومت کی مشاورت کے ساتھ تشکیل دی گئی ہیں۔

اس سے پہلے انہوں نے وزیرِ اعلٰی ہاؤس اور گورنر ہاؤس میں امن و امان کی صورتحال پر منعقدہ طویل اجلاسوں میں شرکت کی، جس میں سیکیورٹی سادہ لباس میں اہلکاروں کی جانب سے اٹھائے جانے لوگوں کو جنہیں بعد میں لاپتہ قرار دے دیا گیا تھا، اور تشدد کی شکایتوں پر تبادلۂ خیال کیاگیا۔

ان اجلاسوں کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلٰی حکام اور اتھارٹیز کی جانب سے وزیرِ داخلہ کو سندھ اور خاص طور پر کراچی میں امن و امان کی صورتِ حال کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔

یہ فیصلہ کیا گیا کہ آپریشن کو متنازعہ نہ بننے کی یقین دہانی کرائی جائے گی، اس لیے کہ اس کی کامیابی صرف اسی صورت ممکن ہوسکتی ہے جب تک اس کو تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ ایک کمیٹی وزارت داخلہ کے تحت انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے درمیان تعاون کی بہتری کو یقینی بنانے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان رابطے کو بہتر بنانے کے لیے تشکیل دی گئی ہے،

دوسری کمیٹی وزیراعلٰی کے سیکریٹیریٹ میں کام کرے گی اور تیسری کمیٹی چیف سیکریٹری کی نگرانی میں قائم کی گئی ہے۔ یہ لاپتہ افراد، تشدد زدہ اور گرفتار کیے گئے لوگوں کی شکایت کا جائزہ لے گی۔

چوہدری نثار نے کہا کہ حکام کو ہدایت کردی گئی ہیں کہ وہ حراست میں لیے گئے افراد کے متعلق ان کے خاندان، وزارتِ داخلہ اور وزیرِاعلٰی کو گرفتاری کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر مطلع کریں گے۔

جب ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی کہ آپریشن کے آغاز کے وقت کمیٹیوں کی تشکیل فیصلہ کیوں نہیں کیا گیا تھا، تو وزیرِ داخلہ نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی۔

اس کے علاوہ انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے وفود سے بھی ملاقات کی اور آپریشن سے متعلق ان کی رائے حاصل کی۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیوایم نے تیس لاپتہ افراد کی ایک فہرست ان کو دی ہے، لیکن پولیس یا رینجرز کے کسی اہلکار کی برطرفی کی درخواست نہیں کی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس بات ہدایت دے دی گئی ہیں کہ ان کے اہلکار سادہ لباس میں کسی شخص کو گرفتار نہیں کریں گے، تاہم سی آئی ڈی کے اہلکار اس شرط سے مستثنٰی ہوں گے، لیکن انہیں حراست میں لیے جانے والے فرد کے بارے میں چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ان کے خاندان کو مطلع کرنا ہوگا۔اگر کوئی ادارہ حراست میں لیے جانے کا ذمہ دار نہیں ہوا تو ایک ایف آئی آر اس کے خلاف درج کی جائے گی، جس نے کسی فرد کو حراست میں لیا ہوگا۔

چوہدری نثار نے کہا کہ ستمبر سے نومبر تک امن و امان کی صورتحال میں چالیس فیصد بہتری آئی تھی، جبکہ دسمبر میں ملی جلی کارکردگی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔

جرائم پیشہ عناصر نے جنوری اور فروری میں ردّعمل ظاہر کیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا، لیکن حکومت نے اس معاملے سے نمٹنے کے لیے اب ایک حکمت عملی تیار کرلی ہے۔

وزیرداخلہ نے کہا کہ اب تک تین سو مجرموں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ انہوں نے طالبان کا نام لیے بغیر کہا کہ جرائم پیشہ عناصر کے چالیس گروپ کام کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لیاری گینگ وار کے 230 کارکنوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ غیرقانونی سموں پر پابندی کا معاملہ پیچیدہ ہے، اس لیے کہ لوگوں کو ان کے استعمال کی عادت پڑ گئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں