مینڈٹ سے تجاوز

15 فروری 2014
جبری گمشدگیاں بدستور جاری لیکن حکومت صرف انٹیلی جنس ایجنسیوں کومزید شہہ دیے جارہی ہے۔  فائل فوٹو۔۔۔
جبری گمشدگیاں بدستور جاری لیکن حکومت صرف انٹیلی جنس ایجنسیوں کومزید شہہ دیے جارہی ہے۔ فائل فوٹو۔۔۔

جاسوسی کی جنگ میں روپ بدل ایجنٹوں کو دوسرے مقامات پر بھیجنا اور پھر حُبّ الوطنی، قوم، نسل اور مذہب کے نام پر لوگوں کو خوفزدہ کرنے کا مقصد زیادہ سے زیادہ معلومات کا حصول ہوتا ہے۔ رازداری کے نام پر تہوں میں لپٹی اس دنیا کو مہین پردے سے ہی دیکھنے کی اجازت ہے اور یہ سب کچھ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں میں بھی نمایاں ہے۔

بلاشبہ کہیں اور کے مقابلے میں، پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حریف نیٹ ورکس یہاں زیادہ واضح دکھائی دے سکتے ہیں۔ منطقی لحاظ سے یہ الزام کم نہیں اور وقت گذرنے کے ساتھ انٹیلی جنس ایجنسیوں پر زیادتیوں کے ارتکاب کے الزامات کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔

حالیہ دنوں میں انٹیلی جنس ایجنسیوں پر، گذشتہ برس بہاول نگر سے ایک نوجوان کی گمشدگی اور اسلام آباد سے ڈرون حملوں کے خلاف سرگرم مہم چلانے والے شخص کو لاپتا کرنے کے الزامات لگے ہیں۔

پنجاب پولیس کی جانب سے بدھ کو سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ پیش کی گئی ہے، جس میں گذشتہ برس بہاول نگر کے ایک نوجوان کی گمشدگی میں آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔

دوسرے واقعے میں، ڈرون حملوں کے خلاف سرگرم مہم چلانے والا وہ شخص لاپتا ہوا جس کا بیٹا اور بھائی سن دو ہزار نو کے ایک حملے میں مارے گئے تھے اور ابھی حال ہی میں اس نے اپنا مقدمہ یورپ کے سامنے پیش کیا تھا۔

ڈرون حملوں میں مارے گئے شہریوں کے اعداد و شمار حاصل کرنے کے لیے سرگرم مہم چلنے والے اس شخص کی گمشدگی کے اثرات سے قطع نظر، یہ نہایت تتشویشناک ہے کہ پُراسرار گمشدگیاں تواتر سے ہورہی ہیں۔

عدالتی مداخلت اور بڑے پیمانے پر وکلاء، انسانی حقوق کے کارکنوں اور عوامی احتجاج کے باوجود یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ لگتا ہے کہ ایجنسیوں کو لگام دینے کی 'مہم' کہیں اٹک گئی ہے۔

آئی ایس آئی سمیت دیگر انٹیلی جنس ایجنسیوں پر جو شکوک و شبہات ہیں، انہیں دور کرنے کے لیے حکومت نے اب تک کچھ خاص قابلِ ذکر اقدامات نہیں۔ اس ضمن میں، ایسے عناصر سے انٹیلی جنس ایجنسیوں کو پاک کرنے کے واسطے حکومت کے لیے پہلا بہتر قدم یہ ہوگا کہ وہ ان کے کام کرنے پر کچھ اختیارحاصل کرلے۔

اس وقت یہ کوشش نہیں ہوئی کہ جب حکومت، صحافیوں اور غیر سرکاری ارکان پر مشتمل امن مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے کر اختیارات سپرد کرنے کی تیار میں تھی۔ اس کے بجائے حکومت تحفظِ پاکستان آرڈینس کے ساتھ سامنے آئی، جو غیر متوقع نہ تھا۔

ان چاہے غیر معمولی حالات میں نافذ کردہ، اس قانون نے خفیہ اداروں کے ہاتھوں غیرقانونی سرگرمیوں میں اضافے کےحقیقی خدشات کو ابھارا ہے اور بشمول تمام، اس کی باریک سی پرت کے نیچے خفیہ دنیا اب تک بدستور سانس لیے جارہی ہے۔

اس طرح کے اقدامات کے بعد بھی، عسکریت پسندی کے خلاف جنگ سے لے کر بلوچستان کے مسئلے تک، ریاست بدستور جمہویت کی بالا دستی پر ٹھوس عزم کا اظہار کرتے ہوئے تمام مسائل حل خوش اسلوبی سے حل کرنے کی بات کررہی ہے۔

یقینی طور پر جمہوریت منتخب نمائندوں کے ہاتھوں میں اختیارات سونپ کر حکومت کرنے کی یَک رخی تصویر کا نام نہیں اور نہ ہی یہ پُراسرار گمشدگیوں کو جدید قانون کا لبادہ پہنا کر اُسے دوسرا جنم دینے کا نام ہے۔

انگریزی میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں