مرزا غالب کی برسی

15 فروری 2014
مرزا اسداللہ خان غالب۔- اے ایف پی فوٹو
مرزا اسداللہ خان غالب۔- اے ایف پی فوٹو
دہلی کی بستی نظام الدین میں مرزا غالب کا مزار۔-فوٹو بشکریہ وکی میڈیا
دہلی کی بستی نظام الدین میں مرزا غالب کا مزار۔-فوٹو بشکریہ وکی میڈیا

ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے

شاعر تو وہ اچھا ہے پر بد نام بہت ہے

اپنی مثال آپ جیسی شخصیت رکھنے والے اردو و فارسی کے عظیم شاعر مرزا غالب کی 145 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔

غالب اردو کے عظیم شاعر تھے، ان کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی میں ہی نہیں بلکہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کی گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور اسے بڑی ہی سادگی سے عام لوگوں کیلئے بیان کردیتے تھے۔

اردو اور فارسی کے عظیم شاعر اسد اللہ خان غالب 27 دسمبر 1797 میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔

مغل بادشاہ کی طرف سے نجم الدولہ، دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے، غالب ان کا تخلص تھا اور اس کا اثر ان کے کلام پر بھی رہا، کوئی انہیں مغلوب نہ کر سکا۔

پانچ سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد غالب اپنے چچا کے ہاں رہنے لگے تاہم چار سال بعد چچا کا سایہ بھی ان کے سر سے اٹھ گیا۔

غالب نے لڑکپن سے ہی شعر کہنا شروع کردیئے تھے، شادی کے بعد غالب دہلی منتقل ہوگئے، جہاں انھوں نے ایک ایرانی باشندے عبد الصمد سے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔

غالب اردو اور فارسی میں شعر کہتے تھے تاہم فارسی شاعری کو زیادہ عزیز جانتے تھے۔

نقادوں کے مطابق غالب پہلے شاعر تھے جنھوں نے اردو شاعری کو ذہن عطا کیا، غالب سے پہلے کی اردو شاعری دل و نگاہ کے معاملات تک محدود تھی، غالب نے اس میں فکر اور سوالات کی آمیزش کرکے اسے دوآتشہ کردیا۔

ان کی شاعری میں انسان اور کائنات کے مسائل کے ساتھ محبت اور زندگی سے وابستگی بھی بڑی شدت نظر آتی ہے، جس نے اردو شاعری کو بڑی وسعت دی ہے۔

غالب کی شاعری، رومانیت، واقعیت، رندی، تصوف، شوخی و انکساری جیسی متضاد کیفیتوں کا حسین امتزاج ہے۔

انہوں نے زندگی کو کھلے ذہن کے ساتھ مختلف زاویوں سے دیکھا اور ایک سچے فنکار کی حیثیت سے زندگی کی متضاد کیفیتوں کو شاعری کے قالب میں ڈھالا۔

غالب نے اپنے ذہن کے تمام دروازے کھلے رکھے، ایک خالص تجرباتی شاعر کی حیثیت سے وہ ہر مقام پر رنگ و آہنگ بدلتے رہے۔

ان کی شاعری زندگی کی کشمکش کی پروردہ ہے اسی لئے ان کی شاعری میں جو رنج و الم ملتا ہے اور جس تنہائی، محرومی، ویرانی، ناامیدی کی جھلک ملتی ہے، وہ صرف ذاتی حالات کا عکس نہیں بلکہ اپنے عہد، سماج اور ماحول کی آئینہ دار ہے۔

آخری عمر میں غالب شدید بیمار رہنے لگے اور بالآخر پندرہ فروری 1869 کو خالق حقیقی سے جاملے۔

اردو شاعری کو نئے رجحانات سے روشناس کرانے والے یہ شاعر اردو ادب میں ہمیشہ غالب رہیں گے۔

پاکستان میں 1969 میں غالب کی زندگی پر دستاویزی فلم بھی بنائی گئی جبکہ پاکستان میں غالب پر ڈرامہ بھی بنایا گیا جس میں قوی خان نے غالب کا کردارا دا کیا۔

غالب کی برسی پر ملک کے ادبی حلقوں نے تقریبات کا اہتمام کیا ہے جبکہ الیکٹرانک میڈیا پر خصوصی پروگرام بھی پیش کئے جائیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں