داستانِ بلوچستان

18 فروری 2014
فائل فوٹو۔۔۔
فائل فوٹو۔۔۔

کچھ عرصہ قبل بلوچستان کے ضلع خضدار سے دریافت ہونے والی پُراسرار اجتماعی قبروں کی داستان اب بھی اُس کھلی چھوٹ کی دہائی دے رہی ہے کہ جس کے اندر تاریک قوتیں صوبے میں برابر اپنا کام کیے جارہی ہیں۔

بہت سارے پاکستانیوں کے لیے یہ ایسا دور افتادہ اور پسماندہ صوبہ ہے کہ جہاں سے آنے والی بعض اطلاعات، ملک کے دیگر حصوں میں متحرک میڈیا میں، مجموعی طور پر صرف چند قطرے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ کم شدت کی بغاوت کے دوران، بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے اور فرقہ وارانہ قتل و غارت، کئی سالوں سے ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیاں بن رہے ہیں لیکن یہاں اس پر کم ہی توجہ دی گئی کہ ملوث گروہ کس طرح کام کرتے ہیں۔

ریاست کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شبہ میں غیر قانونی حراست اور قتل پر، شک کی انگلیاں انٹیلی جنس ایجنسیوں پر اٹھتی ہیں اور انہیں ہی تمام کارروائیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے، سپریم کورٹ نے بھی لاپتا افراد کے حوالے سے سخت نوٹس لیا تھا۔

لیکن اب، غائب اور لاپتا افراد کی الجھی گتھی کے ضمن میں ایک بات تیزی سے واضح ہوتی جارہی ہے کہ اس سارے مشکوک کھیل میں ایک سے زیادہ کھلاڑی شامل ہیں۔

اس سیاہ ترین حقیقت کے بھیانک پہلو کا یہ اشارہ ملا ہے کہ بلوچستان میں سرگرم مختلف فرقہ وارانہ، سیکیورٹی اور علیحدگی پسندعناصر کے ایک دوسرے سے جُڑے مفادات ہیں اور قتل کرنے کی ذمہ داری مبینہ طور پر دوسروں کو دی جاتی ہے، یہی وہ وجہ ہے جس نے حالات کو قابو سے باہر ہونے کی اجازت دی۔

اس ضمن میں ہمارے رپورٹرز کی ایک ٹیم نے، حال ہی میں قبروں کے مقامات دورہ بھی کیا تھا، جس کی چشم کشا رپورٹ گذشتہ روز کے 'ڈان' میں شائع ہوچکی۔ یہ اجتماعی قبریں اُس مقام سے دریافت ہوئی تھیں جہاں، بظاہرایک فرقہ وارانہ تنظیم کا تربیتی کیمپ تھا۔

علاوہ ازیں، اجتماعی قبروں سے ملنے والی دو لاشیں 'وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز' کے اُن کارکنوں کی ہیں، جنہیں بلوچ علیحدگی پسند تحریک کے گڑھ آواران سے اٹھایا گیا تھا۔

اس معمے کے مختلف حصے اب تک غائب ہیں، اسی لیے ابھرتی یہ تصویر بہت زیادہ آگے نہیں لی جاسکتی تاہم اجتماعی قبروں کی تحقیقات کے لیے قائم عدالتی ٹریبونل کی حتمی رپورٹ کے بعد ہوسکتا ہے کہ یہ تصویر شاید زیادہ کچھ واضح ہوسکے۔

اس کے باوجود یہ وقت ہے کہ خونی کھیل اور اس کے ممکنہ کرداروں پر مرکوز توجہ کو، ان تمام عناصر کے درمیان قائم گٹھ جوڑ اور ریاست کی مبہم ایجنسیوں سے تعلق تک، وسعت دی جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں