آزاد لیکن منصفانہ تجارت

اپ ڈیٹ 21 فروری 2014
پاکستان اورہندوستان کے درمیان تجارت کے وسیع تر مواقع موجود ہیں۔ فائل تصویر
پاکستان اورہندوستان کے درمیان تجارت کے وسیع تر مواقع موجود ہیں۔ فائل تصویر

پاکستان نے گزشتہ تین برسوں میں ہندوستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لئے خوش آیند اقدامات کئے ہیں- جنوبی ایشیاء میں امن اور استحکام کی اشد ضرورت ہے جس کے لئے دونوں ممالک کی کوششیں درکار ہیں- دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان زیادہ کھلی تجارت، جس کے نتیجے میں بالاخر عوام کی دو طرفہ آمد و رفت شروع ہوگی، سرمایہ کاری ہوگی، ٹکنولوجی اور فنی مہارتوں کا تبادلہ ہوگا اور ترقی کے کاموں میں تعاون بڑھے گا ،بہتر تعلقات قائم کرنے میں ایک اہم ذریعہ ثابت ہوگا۔

ممالک اور علاقائی خطوں کے درمیان زیادہ آزاد تجارت کے فروغ کو ترقی اور سرمایہ کاری کا ایک اہم عنصر سمجھا جاتا ہے- لیکن، اس کے لئے ایک ضروری شرط اصولوں پر مبنی تجارت کی عملداری ہے جو تسلسل، شفافیت اور استحکام کےساتھ جاری رہے اور اسکی پیش بینی ممکن ہو۔

پاکستان کی وزارت تجارت نے ہندوستان کوپسندیدہ ترین ملک کا اصولی درجہ دینے کے لئے ایک معاہدہ پر دستخط کئے تھے (ایم ایف این کو اب نان- ڈسکریمینیٹری مارکٹ ایکسس یا این ڈی آیم اے کا نام دیا گیا ہے تاکہ اسے ملک کے عوام کے لئے زیادہ قابل قبول بنایا جاسکے)- اسکے بعد 2012 اور 2013 میں تحقیقاتی رپورٹیں شائع کی گئیں جس میں ہندوستان کے ساتھ تجارتی معاہدوں کا اور ہندوستان کی تجارتی سرگرمیوں کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا تھا اور ان نقاط کی جانب توجہ دلائی گئی تھی جن پر احتیاط برتنے کی ضرورت تھی۔

اس تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ہنوستان نے پاکستان کو اپنی مارکیٹ تک پہنچنے کی، پاکستان کے مقابلے میں، نسبتاً محدود رسائی دی ہے جو درج ذیل نقاط سے ظاہر ہے۔

ہندوستان نے پاکستان کے مقابلے میں اپنی حساس اشیاء کی فہرست پر مجموعی طور پرٹیرف کی اعلیٰ سطح برقرار رکھی ہے (8-ڈیجٹ ایچ ایس کوڈ لیول پر۔

ہندوستان نے آزاد تجارت کے دائرے سے پاکستان کی بہت سی زرعی اور ٹیکسٹائل اشیاء کو خارج کردیا ہے جس میں اسکو مقابلہ کا سامنا ہوسکتا ہے-

ہندوستان کی تجارت کا دائرہ محدود اور مسخ شدہ ہے- اسکے علاوہ نان- ٹیرف بیرِئر کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے، زرعی شعبہ کو اعلیٰ سبسیڈیز دیجاتی ہیں اور پاکستان کے تعلق سے ایم ایف این کے تحت بہت سی اشیاء کی درجہ بندیوں پر اعلیٰ ٹیریف والی اشیاء شامل کی گئی ہیں۔

ہندوستان کی مارکیٹ میں پاکستان کی برآمدات کو کم رسائی حاصل ہے کیونکہ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ اس نے ترجیحی تجارتی معاہدے کر رکھے ہیں۔

تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ہندوستان کو پاکستان میں اپنی برآمدات سے زیادہ فائدہ پہنچتا ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ معاملہ برعکس ہے-اسکی وجہ مذکورہ بالا باتوں کے علاوہ خود تجارتی ڈھانچہ بھی ہوسکتا ہے----کیونکہ پاکستان جو اشیاء برآمد کرتا ہے ،ہندوستان ان میں سے کم اشیاء درآمد کرتا ہے جبکہ پاکستان زیادہ تر وہ اشیاء درآمد کرتا ہے جو ہندوستان برآمد کرتا ہے۔

گو کہ ،این ڈی ایم اے/ ایم ایف این کے تحت ہندوستان پاکستان کو زیادہ اشیاء برآمد کرتا ہے بہ نسبت ان برآمدات کہ جو پاکستان ہندوستان کو برآمد کرتا ہے ،امید یہ ہے کہ پاکستان کا مجموعی تجارتی توازن نمایاں طور پرخراب نہیں ہوگا- اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان سے پاکستان درآمد کی جانے والی بہت سی اشیاء اب دوسرے ممالک سے درآمد کی جائینگی۔

تجارتی مذاکرات بیحد اہم ہوتے ہیں- لاکھوں لوگوں کی ملازمتیں، آمدنی اور روزگار اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ کوئی ملک کتنا سامان کتنی تیزی سے تجارت کے لئے اپنے تجارتی شریک کو پیش کرسکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ممالک کے درمیان مذاکرات میں برسوں لگ جاتے ہیں جس میں بین الاقوامی تجارتی معاہدوں کے ماہر بہترین قانون داں، ماہر معاشیات اور پیشہ ور سفارت کار حصہ لیتے ہیں جس میں 'چیپٹرز' اور سامان کی درجہ بندی کا تو ذکر ہی کیا ایک ایک کاما اور سیمی کولن پر بحث تکرار ہوتی ہے- اسی وجہ سے، امریکہ اور یوروپین یونین، جو آزاد تجارت کے زبردست حامی ہیں اکثر اوقات جاپان اور چین سمیت کئی ممالک پر پابندیاں لگاتے رہتے ہیں۔

(پاکستان میں بعض ماہرین معاشیات نے ہندوستان کے ساتھ کھلی تجارت پر بحث شروع کی ہے جو خالصتاً 'صارفین کی بہبود' کے نقطہ نظر سے ہے------یعنی پاکستان کے اوسط درجے کے صارف کو اس سے فائدہ پہنچے گا کیونکہ چیزیں سستی ملینگی- اس تنگ بنیاد پر بھی، جس میں ملازمتوں اور آمدنیوں پر مرتب ہونے والے اثرات پر غورکئے بغیر خالص فائدے کا اندازہ لگایا گیا ہے، اسکے باوجود بھی یہ فائدہ بہت زیادہ نہیں ہے۔

پاکستان میں کئے جانے والے صرف ایک مطالعہ کے مطابق جس میں ٹھوس ثبوت پیش کئے گئے ہیں----عام اندازوں سے ہٹ کر-----اس سے صارفین کو فی کس 389 روپیہ کا فائدہ ہوگا(انسٹیٹیوٹ آف پبلک پالیسی 2012)- اس سے پہلے ایک ہندوستانی اسٹڈی کے مطابق جو پردیپ مہتا نے کی ہندوستان کو ایم ایف این کا درجہ دینے کے بعد پاکستانی صارفین کو اس سے بھی کم فائدہ ہوا ہے۔ ) پاکستان کی وزارت تجارت نے کسی بھی تحقیقاتی مطالعہ کے بغیر، بین الاقوامی تجارت کے کسی بھی قانون داں کے مشورہ کے بغیر،تجارت کے معاشیات کے ماہر یا صنعتوں سے سنجیدگی سے مشورہ کئے بغیر2011 اور 2012 میں ہندوستان کے ساتھ ایم ایف این کے تحت تجارت کو کھولنے کی پالیسی تیار کی- سیاسی اور جغرافیائی دباؤ کے تحت ہندوستان کے ساتھ اس کے غیر متوازن تجارتی معاہدوں کے نتیجے میں نہ صرف ملازمتوں پر اثر پڑے گا، جبکہ برآمدات کو محدود فائدہ پہنچے گا بلکہ بعد ازاں ملک میں بھی مخالفت بڑھے گی جس سے تجارت متاثر ہوسکتی ہے۔

پاکستان کو ہوم ورک کئے بغیر تجارتی معاہدہ کرنے میں جلدبازی نہیں کرنا چاہیئَے----اسی قسم کی غلطی بار بار ماضی میں بھی کی جاچکی ہے اور چین کے ساتھ ایف ٹی اے کے تعلق سے بھی ہوچکی ہے- ہندوستان میں ہونے والے انتخابات کے پیش نظر ---اور ہندوستان کے ساتھ آزاد تجارت کے مختلف شعبوں پر اثرات کے بارے میں متوقع تحقیق سے------پاکستان کو خاصا وقت مل جائیگا کہ وہ ان مسائل کا جائزہ لے اور کمزوریوں کو دور کرے۔

اس دوران پاکستان کو چاہیئے کہ وہ معاہدے کو از سر نو تشکیل دے، ہندوستان کے مسابقتی سامان کو مارکیٹ تک رسائی دے، درآمدات میں ہونے والے اضافے کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے اداروں کی صلاحیت میں اضافہ کرے، ملکی صنعت(اور زراعت) کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لے، دو طرفہ تجارتی تنازعات کو حل کرے ، ڈبلیو ٹی او کا حوالہ دے اور صفائی ستھرائی کے اقدامات کرے اگر تجارت صحیح سمت میں برابری کی سطح پر ہوگی توسامان اور خدمات کی کھلی تجارت اور سرمایہ کاری سے پاکستان اور ہندوستان دونوں ہی کو فائدہ ہوگا۔

ترجمہ: سیدہ صالحہ

تبصرے (0) بند ہیں