فضائی کارروائی سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو گی: پروفیسر ابراہیم

21 فروری 2014
طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر محمد ابراہیم  نے کہا کہ حکومت طالبان کی مذاکراتی کمیٹی میں شامل اراکین کو طالبان کے طور پر سمجھتی ہے اور اس کے ساتھ ملاقات کرنے سے گریزاں ہے۔—فائل فوٹو۔
طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ حکومت طالبان کی مذاکراتی کمیٹی میں شامل اراکین کو طالبان کے طور پر سمجھتی ہے اور اس کے ساتھ ملاقات کرنے سے گریزاں ہے۔—فائل فوٹو۔

پشاور: جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے چیف اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر محمد ابراہیم گزشتہ روز خیبر ایجنسی اور شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقوں میں ہونے والی بمباری کی مذمت کرتے ہوئے اسے معصوم شہریوں کے خلاف ایک کارروائی قرار دیا۔

گزشتہ روز جمعرات کو پشاور سے جاری ہونے والے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ فضائی کارروائی سے صورتحال مزید پیچیدہ ہوگی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کارروائی سے اصل میں معصوم لوگ متاثر ہوں گے، کیونکہ بے مقصد فائرنگ اور گولہ باری مذاکراتی عمل کی بحالی کے لیے مثبت ثابت نہیں ہوسکتی۔

پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ فوجی آپریشن مسائل کا حل نہیں ہے، کیونکہ گزشتہ دس برسوں میں ہزاروں معصوم عوام ان آپریشنز کا شکار ہوئے ہیں اور اگر حکومت یہ کارروائی بند نہیں کرتی ہے تو اموات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذاکراتی عمل میں تعطل طالبان کمیٹی کی وجہ سے نہیں ہوا، بلکہ حکومت نے اپنے طور پر اس عمل کو روکا ہے۔ ان کا کہنا تھا مذاکرات اس وقت کامیاب ہوں گے جب دونوں طرف سے جنگ بندی ہو۔

پروفیسر محمد ابراہیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ حکومتی کمیٹی کے جواب کے منتظر ہیں، لیکن ہماری طرف سے رابطے کے باوجود ابھی تک ان کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی کمیٹی کا طالبان کمیٹی کے ساتھ ملاقات سے انکار ایک نہایت غیر ذمہ دارانہ فعل ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت طالبان کی مذاکراتی کمیٹی میں شامل اراکین کو طالبان کے طور پر سمجھتی ہے اور اس کے ساتھ ملاقات کرنے سے گریزاں ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ طالبان نہیں ہیں، لیکن وہ صرف مصالحتی عمل کی بحالی کی کوششیں کررہے ہیں۔

پروفیسر ابراہیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومتی کمیٹی نے مذاکراتی عمل میں خود تعطل پیدا کیا اور اب وہ خود ہی اس کی بحالی کے لیے ہم سے رابطہ کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں طالبان کی کمیٹی کسی قسم کا رابطہ نہیں کرے گی، کیونکہ اس نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔

انہوں نے حکومت کی جانب سیکیورٹی اہلکاروں کی زیر حراست ہلاکتوں کے خلاف کیے گئے مطالبہ کو جائز قرار دیتے ہوئے حکومت سے کہا کہ وہ طالبان کو اس بات کی یقین دہانی کروائیں کہ اب کوئی ماوارئے عدالت ہلاکتیں نہیں ہوں گی۔

وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات پرویز رشید کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے جماعتِ اسلامی پشاور کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مذہب کسی کو بھی گلے کاٹنے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن اسلام تشدد کے ذریعے ہلاک کرنے سے بھی منع فرماتا ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

kamran Feb 21, 2014 10:12am
Yes, as if the situation is not complicated already. Islam is becoming a laughing stock in the world sue to these animals. Get rid of them asap.
انور امجد Feb 21, 2014 11:35am
مذاکرات میں تعطل طالبان پاکستان کی دہشت گردی کی کاروائیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ حکومت نے بہت صبر سے کام لیا ہے۔ طالبان پاکستان کو اپنی قوت کے بارے میں بہت غلط فہمی ہے۔ آج کل کے زمانے میں کوئی فوج بغیرہوائی فوج کی مدد کے لڑ نہیں سکتی۔ ان کو دہشت گردی ترک کرکے مذاکرات سنجیدہ طریقے سے شروع کرنا چاہیے۔ پولیس شہروں میں شرپسندوں کو کوئی رعائت نہیں دے سکتی۔ اس مسئلہ کو مزاکرات سے الگ رکھیں۔