مکران میں غیرمساوی قوتیں

اپ ڈیٹ 21 فروری 2014
۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

پچھلے چار مہینوں کے دوران مجھے مکران جانے کا دو مرتبہ موقع ملا، اور اس دوران میری مقامی افراد کے ساتھ ساتھ مختلف سطح کے کچھ حاضر سروس فوجی آفیسروں سے وسیع بات چیت ہوئی۔ مؤخرالذّکر کا تعلق نیوی اور آرمی سے تھا۔ اس قابل ذکر بات چیت نے توجہ اپنی جانب مبذول کروالی تھی۔

زیادہ تر فوجی افسران نے تسلیم کیا کہ مکران کے لوگ سادہ، پُرامن اور دوستانہ مزاج کے حامل ہیں، وہ اپنے ڈسٹرکٹ میں ترقیاتی کاموں کی پذیرائی کرتے ہیں، اور یہ فساد اُن کی فطرت میں نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنا اور ان کی رضامندی حاصل کرنا آسان ہے۔

ان افسران کا یہ نکتہ نظر بھی تھا کہ فساد کا سبب بننے والے وہ باغی ہیں جو شمالی بلوچستان کے زیادہ شورش زدہ اضلاع سے وقتاً فوقتاً مکران میں دراندازی کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گوادر میں کچھ مقامی بااثر کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کوسٹ گارڈ اور فرنٹیئر کور (ایف سی) کی موجودگی ہی کلی طور پر ناراضگی کا باعث ہے، یہ دونوں نیم فوجی اداروں کی کمانڈ فوج کے سیکنڈڈ افسران کے سپرد ہے۔

یہ شکایت ان دونوں نیم فوجی اداروں کے جوانوں اور افسران کے مخاصمانہ رویّے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔

ایک شکایت یہ تھی کہ وہ خودسر اور غیر مہذب تھے۔ لوگ محسوس کرتے تھے کہ ان کا برتاؤ ایک قابض فوج کی مانند ہے۔

مکران کوسٹل ہائی وے (ایم سی ایچ)، گوادر پورٹ اور ایک شہر سے پورٹ کو جانے والی ایک بہترین سڑک جسے حال ہی میں فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن نے مکمل کیا ہے، جیسے منصوبوں کو ابتداء میں سراہا گیا تھا۔

لیکن وقت کے ساتھ ساتھ نفرت میں اضافہ ہوا، یہاں تک کہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کی تعمیر کردہ سڑک کے بارے میں یہ بھی کہتے ہوئے سنا گیا کہ تمام لوگ فکرمند ہیں کہ اس سڑک کو فوج اپنے استعمال کے لیے لے سکتی ہے۔

ایک ضلع میں جہاں یہ اتھل (اور ایک ایکسٹینشن کے ذریعے کراچی اور بیلا تک) اور ایرانی سرحد کے ساتھ ساحلی شہروں کے درمیان رسائی کا اہم ترین ذریعہ ہے، اس کے متعلق لوگوں کی سوچ کو نوٹ کیا جانا چاہیٔے۔

اس کے برعکس اس وقت سے جب اورماڑہ پر تقریباً دس سال پہلے نیوی کا بیس تیار ہوا تھا، اب تک نیوی لوگوں کے دل و دماغ جیتنے کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔

اورماڑہ میں ایک بہترین ہسپتال قائم ہے، جہاں مقامی لوگوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔

یہاں ایک نیا کیڈٹ کالج ہے، اس کے علاوہ ایک ہائی اسکول اور ایک کالج بھی ہے۔ ان تینوں تعلیمی اداروں میں مکرانی اور بلوچ بچوں کے داخلے میں اولین ترجیح دی جاتی ہے۔

صرف ایک دہائی پہلے کی بات ہے، جب مکران کوسٹل ہائی وے یہاں تعمیر نہیں ہوئی تھی، صوبائی حکومت کی اسکیموں میں اورماڑہ کے لیے ایسی کوئی سہولت نہیں دی گئی تھی۔

بچوں کو آٹھویں کلاس سے آگے اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑ کر تربت یا کراچی جانا پڑتا تھا۔

اب جبکہ نیوی نے طبی اور تعلیمی سہولتیں فراہم کی ہیں، یہ ادارے پورے مکران کے بچوں کی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔

اورماڑہ اور گوادر میں مختلف لوگوں سے نجی طور پر بات چیت میں یہ ظاہر ہوا کہ کوسٹ گارڈ اور ایف سی کی تعیناتی سختی کے ساتھ قانون کے نفاذ اور اسمگلنگ کے خلاف کاروائیوں کے لیے کی گئی ہے۔

اس کے مقابلے میں نیوی نے کسی کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کی اور لوگوں نے باآسانی قبول کرلیا ہے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فوج کے دماغ نے اس سمت میں کام نہیں کیا۔ بہت سے افسران کے ساتھ بات چیت کے دوران ان میں سے صرف ایک درمیانے درجے کے افسر اپنے ادارے کے رویّے کے بارے میں فکرمند تھے۔

ایک صاحب نے تجویز دی کہ جب فوج خاص طور پر بلوچستان میں ترقیاتی منصوبہ شروع کرتی ہے تو اس کو عوامی منصوبوں سے شروعات کرنی ہوگی، جیسے کہ صاف پانی یا طبی اور تعلیمی سہولیات کی اسکیمیں ۔

اگرچہ وہ نہیں جانتے تھے کہ دیہی ماحول میں کوشش اور تجربات کا طریقہ کیا ہوگا، انہوں نے تجویز دی کہ فوجی تمام اقدامات ایسی مشق سے شروع ہونے چاہیئیں، جس سے تمام برادریوں کو ایک سطح پر لایا جاسکے۔

ان کے خیال میں اس بات کی ضرورت تھی کہ حکومت کی جانب سے جو بھی سہولت فراہم کی جارہی ہے، آبادی کے لوگوں میں اس کی ملکیت کا احساس پیدا کیا جائے۔

یہ ایک فرد کی ہی بات نہیں تھی۔ مکران کوسٹل ہائی وے کے ساتھ ساتھ بہت سے گاؤں میں میں نے کئی مردوں سے ملاقات کی جو دیگر افسران کے متعلق بہت زیادہ بات کررہے تھے۔

یہ وہ افسران تھے جنہوں نے ایک دہائی پہلے اس علاقے کو چھوڑ دیا تھا، اور جنہیں اب بھی محبت کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔

یہاں تعینات ہونے والے ان افسران کی اس کے علاوہ ایک خاصیت یہ تھی کہ ان کا خلوص اور ان کی فکرمندی یہاں کی کمیونٹی کے لیے تھی، جس کے ساتھ ان کا رابطہ تھا۔

یہ وہ لوگ تھے جو اپنی ڈیوٹی سے آگے جاکر مدد کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔

ہم نے دیکھا کہ نیوی نے مکران میں اپنے کاموں کے ذریعے لوگوں کو اپنا دوست اور پرستار بنایا ہے۔

ہم نے یہ بھی دیکھا کہ آرمی کے افسران نے انفرادی طور پر بلوچ عوام سے محبت اور احترام حاصل کیا ہے۔

پھر آخر فوج کے لیے بطور ادارہ بلوچستان میں ایسا احساس حاصل کرنا کیوں ناممکن ہے؟

تبصرے (1) بند ہیں

Tariq Abbasi Feb 21, 2014 04:50pm
In this age of ex-aggravation, it is very balanced article. I can rarely see such articles now.