خوش آئند فیصلہ

23 فروری 2014
مشرف مقدمہ فوجی عدالت میں چلانے کی درخواست مسترد مگر سماعت و سزا کا راستہ صاف نہیں ہوا۔ 
فائل فوٹو۔۔۔
مشرف مقدمہ فوجی عدالت میں چلانے کی درخواست مسترد مگر سماعت و سزا کا راستہ صاف نہیں ہوا۔ فائل فوٹو۔۔۔

پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت فوجی عدالت میں نہیں ہوگی؛ خصوصی عدالت نے ماضی کی طاقتورترین شخصیت کی جا سے مقدمے کی سماعت فوجی عدالت میں کرنے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے، سن دو ہزار سات میں آئین معطلی کے مقدمے میں جناب مشرف کو طلب کرلیا ہے۔

اگرچہ جناب مشرف کی درخواست ماننے کی کوئی ٹھوس دلیل نہ تھی لیکن پھر بھی خصوصی عدالت کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ اس نے طے کردیا کہ سویلین کے تیار اور منظور کردہ، آئین کے خلاف جرم کا مقدمہ بھی سویلین عدالت میں ہی چلنا چاہیے۔

دیگر اور باتوں کے علاوہ، سول ۔ ملٹری تعلقات میں عدم توازن نے ملک کی سیاسی، معاشی اور سماجی تاریخ کو تباہ و برباد کر ڈالا، اب اس پر مزید زور دیا جارہا ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں ایسا ہونا، جمہوری منصوبے کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔

جنباب مشرف کی جانب سے مقدمہ فوجی عدالت کو سونپنے کے مطالبے کو مسترد کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اب سابق آرمی چیف پر مقدمہ چلانے اور انہیں سزا دینے کا راستہ صاف ہوچکا۔

یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ عدالت نے جناب مشرف کے مطالبات اور ان کے باغیانہ رویے پر اب تک نہایت لچک کا مظاہرہ کیا، مہربانی کے اس سیاق و سباق میں، خصوصی عدالت کی یہ خواہش ہے کہ منصفانہ سماعت کے لیے جناب مشرف کو ہر ممکنہ حق فراہم کیا جائے۔

تاہم، یہاں ایک اور ذرا کم مہربان نقطہ نظر بھی ہے: مقدمے میں ملوث ہائی پروفائل شخصیت کی تشکیل کردہ ممتاز اور مہنگے قانون دانوں پر مشتمل دفاعی ٹیم اور ان کے ساتھ خصوصی رویے کی بنا پر، جناب مشرف کے اوپر فردِ جُرم عائد کرنے میں عدالت کو لامتناہی تاخیر کا سامنا ہے۔

وہاں شفافیت، منصفانہ مطالبات اور خصوصی رویوں کے درمیان ایک حد قائم ہے اور ان حدود کو پار کرنے پر، خصوصی عدالت کو تکلیف دہ طور پر یہ مقدمہ بند بھی کرنا پڑسکتا ہے۔

اگرچہ مقدمے کی منصفانہ سماعت کی خاطر جناب مشرف کو قانون کے تحت جو بھی حقوق حاصل ہیں، وہ بدستور انہیں استعمال کررہے ہیں تاہم جہاں تک عدالت کے کلیدی اختیارات کی بات ہے تو انہیں سماعت کی رفتار تیز کرنے پر نگاہ ڈالنا ہوگی۔

اگرچہ یہ ان کی مطلوبہ خواہش ہوسکتی ہے، تاہم یقینی طور پر واضح سیاسی مفہوم کی روشنی میں، مشرف مقدمے کے مستقبل کا تعین صرف قانونی مُوشگافیوں کے ذریعے طے نہیں کیا جاسکتا۔

ایک منتخب سویلین حکومت کی جانب سے آزادانہ تحقیقات کے بعد، سابق آرمی چیف پرعائد کردہ الزامات کے تحت، عدالت مقدمے کی سماعت کا فیصلہ کرسکتی ہے، جو جمہوریت اور سویلین بالادستی کی راہ پر آگے کی طرف ایک اہم قدم ہوگا۔

چاہے ایسا عدلیہ کی طرف سے کیا جائے یا حکومت کے وکیلِ استغاثہ کی جانب سے، تاخیر کے سبب جمہوری منصوبے کے فوائد کو ہرگز گنوانا نہیں چاہیے۔

سول ۔ ملٹری سازشیں، ایک جوابدہ جو مقدمے کی سماعت سے ہچکچارہا ہے، ایک فوجی آپریشن جو جلد شروع ہو سکتا ہے اور نہیں بھی، ایک ٹی ٹی پی جو جنگ بندی کرسکتی ہے یا پھر پلٹ کر شدت سے وار بھی کرسکتی ہے ۔۔۔ یہ اور بہت سارے دیگر عوامل پردے کے پیچھے موجود ہیں جو مقدمے کے بہاؤ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

لہٰذا، مقدمے کی سماعت جلد آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

انگریزی میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں