’’نیکٹا کو وزارتِ داخلہ کے کنٹرول میں دینے کی مزاحمت کریں گے‘‘

24 فروری 2014
پی پی پی کے فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ قومی انسدادِ دہشت گردی اتھارٹی کے متعلق اقدام کی پارلیمنٹ میں مخالفت کی جائے گی۔ —. فائل فوٹو
پی پی پی کے فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ قومی انسدادِ دہشت گردی اتھارٹی کے متعلق اقدام کی پارلیمنٹ میں مخالفت کی جائے گی۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: حزبِ اختلاف نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ قومی انسدادِ دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) کے کنٹرول کو وزیراعظم سے وزیرِ داخلہ کو منتقل کیے جانے کے اقدام کی مزاحمت کرے گی۔

وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے حال ہی میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ نیکٹا کو جلد ہی بحال کیا جائے گا اور اس کو وزیراعظم کے بجائے ان کی وزارت کے براہِ راست کنٹرول میں دے دیا جائے گا۔

پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اتوار کو ڈان کو بتایا کہ ’’ہم وزیرِ داخلہ کے فیصلے کی پارلیمنٹ میں مخالفت کریں گے۔‘‘

انہوں نے واضح کیا کہ ’’حزبِ اختلاف کی کئی جماعتوں نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ وہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے آنے والے اجلاسوں میں اس اقدام کے خلاف آواز اُٹھائیں گی۔‘‘

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ نیکٹا کے بل کی منظوری قومی اسمبلی نے 2013ء کے دوران پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت کے دور میں دی تھی، لیکن یہ ادارہ اب تک مکمل طور پر فعال نہیں ہوسکا تھا۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس ادارے کو وزارتِ داخلہ کے بجائے براہِ راست وزیراعظم کے ماتحت کام کرنا تھا۔

قومی انسدادِ دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) کے ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ اتھارٹی وزیرِاعظم کو براہِ راست جوابدہ ایک خودمختار ادارہ ہوگا۔‘‘

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے ایک حالیہ اجلاس میں بھی اس تصور کی حمایت کی گئی تھی کہ نیکٹا وزیراعظم کی براہِ راست نگرانی میں کام کرے گا۔

نیکٹا کے ایکٹ کے تحت اس کے بورڈ آف گورنر کی سربراہی وزیراعظم کریں گے۔ وزیرِ داخلہ بھی اس کے ایک رکن ہوں گے۔

قومی انسدادِ دہشت گردی اتھارٹی کے پہلے ڈائریکٹر جنرل طارق پرویز نے اس وقت کے وزیرِ داخلہ رحمان ملک کے ساتھ رسّا کشی کے بعد اپنی ملازمت چھوڑ دی تھی، جو یہ چاہتے تھے کہ یہ اتھارٹی ان کے کنٹرول کے تحت کام کرے۔

طارق پرویز نے ہی 2008ء میں قومی انسدادِ دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) کا تصور پیش کیا تھا۔

ایک سیکیورٹی ماہر نے ڈان کو بتایا کہ نیکٹا کو براہِ راست وزیراعظم کے کنٹرول میں ہونا چاہیٔے، اس لیے کہ اس طرح صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کے کنٹرول میں آنے والی سولین اور فوجی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ معاملات کو مربوط کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا ’’آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی جیسے ادارے وزیرِ داخلہ کی ہدایات کو زیادہ اہمیت نہیں دیں گے۔‘‘

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ حکومت پہلے ہی نیکٹا کے ایکٹ میں کچھ ترامیم کرنے اور اس اتھارٹی کو وزارتِ داخلہ کے کنٹرول میں دینے کے لیے ایس آر اوز جاری کر چکی ہے۔

وزارتِ داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک سے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے نیکٹا کو بااختیار بنانے کے بجائے حکومت اس لعنت سے نمٹنے کے لیے فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) پر انحصار کرنا چاہتی ہے۔

ایف آئی اے ناصرف دہشت گردی سے بلکہ اپنے امیگریشن ونگ، اینٹی کرپشن ونگ، اکنامک کرائم ونگ، ٹیکنیکل ونگ، سائبر کرائم ونگ اور اکیڈمی کے ذریعے دیگر اقسام کے معاملات اور مسائل سے بھی نمٹ رہی ہے۔

میڈیا کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ جمعہ کے روز حکومت نے ایف آئی اے کو دہشت گردی سے متعلق کیسز سے نمٹنے کے لیے خصوصی اختیارات دے دیے ہیں۔

مسلم لیگ نون کی حکومت مشرف حکومت کی ایف آئی کو خصوصی اختیارات دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

جب وزارتِ داخلہ کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’مجھے اس سلسلے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔‘‘

ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل طارق کھوسہ نے کہا کہ یہ ایجنسی پہلے ہی ایک خصوصی انوسٹیگیشن گروپ رکھتی ہے، جسے دہشت گردی سے متعلق معاملات سے نمٹنے کے لیے 2003ء میں قائم کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں