ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے طالبان جس ریڈیو فریکوئنسی پر اپنا پروگرام نشر کر رہے ہیں زیادہ تر پاکستانیوں کو اس علم ہی نہیں لیکن اس کے باوجود ان کا پیغام بہت واضح اور بالکل صاف ہے، شریعت کا ہمارا ورژن یا پھر ---

تاہم، پھولوں سے سجی اس دنیاوی جنت کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں- جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ طالبان نے افغانستان میں اپنے دور حکومت میں جس طرز حکمرانی کا مظاہرہ کیا وہ ہم میں سے اکثریت کیلئے قابل قبول نہیں-

یکے بعد دیگرے، خون کی سرخی میں لپٹے طالبان کے تازہ ترین ظلم کے باوجود، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ پنجاب نشانہ نہ بنے، نواز شریف پاکستانیوں کی کوئی بھی تعداد قربان کرنے کیلئے تیار ہیں-

اور ایسا سوچنے کی ٹھوس وجہ بھی موجود ہے- کراچی، فاٹا اور پشاور میں دہشت گردوں کے ہاتھوں بے شمار ہلاکتوں کے باوجود وزیر اعظم کا آبائی گڑھ اب تک نشانہ نہیں بنا- اور جب راولپنڈی میں حملہ ہوا تو آرمی اور ایئر فورس نے فوری جوابی کارروائی کرتے ہوئے شمالی وزیرستان میں درجنوں مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا-

لہٰذا، مکمل طور پر ہتھیار ڈالنے کی طرف ہماری موجودہ رفتار کو مدنظر رکھتے ہوئے اب ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ طالبان کی حکومت میں ہمارا ملک کیسا نظر آئے گا؟ یقیناً اس عمل کا آغاز 'صرف' قبائلی علاقوں پر انکی عملداری تسلیم کرنے سے کیا جائے گا تاہم کوئی احمق ہی ہو گا جو یہ سمجھتا ہے کہ یہ سلسلہ یہیں پر رک جائے گا-

اپنے محفوظ اڈوں میں بیٹھ کر عسکریت پسند کی کوشش ہو گی کہ ان کی رسائی پاکستان میں مزید گہرائی تک پہنچے- بالکل ویسے ہی، جیسے ایک طشتری میں سجا کر کر سوات ان کے حوالے کر دیا گیا تھا-

اپنے دشمنوں کی جانب سے ظاہر کیا جانے والا آہنی عزم اور ہماری یکے بعد دیگرے دو حکومتوں کی جانب سے کسی قسم کی مضبوطی اور مخمصے کا شکار رویہ دیکھ کر وہ وقت دور نہیں جب ہم طالبان کی شریعت کا نفاذ بھی دیکھ لیں گے- لیکن اس حقیقت کا مطلب آخر ہو گا کیا؟

اپنے حالیہ انٹرویو میں، طالبان کے ترجمان نے اپنی جانب سے اسلامی امارت پاکستان کیلئے مولانا فضل اللہ کو امیر کی حیثیت سے نامزد کر دیا ہے- جیسا کہ فضل اللہ نے سوات میں دکھا دیا تھا کہ وہ فوری انصاف کی فراہمی کے اپنے طریقہ کار میں انسانی حقوق وغیرہ کی زرہ برابر بھی پرواہ نہیں کرتے، لہٰذا آنے والے دنوں میں عوامی مقامات پر بے پناہ خون، عوامی پھانسیوں اور کوڑوں کیلئے تیار ہو جائیں-

ملالہ یوسفزئی کو تعلیم حاصل کرنے کے اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے پر گولی مار کر، تحریک طالبان پاکستان، مستقبل کیلئے اپنی تعلیمی پالیسی کا اعلان کر چکے ہیں- انہوں نے قبائلی علاقوں اور کے پی کے طول و عرض میں سینکڑوں اسکولوں اور کالجوں کو دھماکوں سے اڑایا ہے-

طالبان یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ ان کے دور میں تعلیم صرف مدرسوں کے ذریعے فراہم کی جائے گی- اب کسی کو بہت زیادہ ذہین ہونے کی ضرورت نہیں کہ یہ رستہ ہمیں کہاں لے جائے گا-

سود طالبان کے نزدیک حرام ہے، لہٰذا ہم نے قرضوں کی مد میں جو اربوں ڈالر لئے ہیں وہ ان پر سود ادا کرنے سے انکار کر دیں گے- ہمیں قرضے فراہم کرنے والے مزید قرضوں کی فراہمی روک دیں گے جس سے زرمبادلہ کا بحران پیدا ہو جائے گا- درآمدات رک جائیں گی اور صنعت کا پہیہ رک جائے گا-

ہمارے خارجہ تعلقات کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ کون اچھا مسلمان ہے اور کون نہیں- لہٰذا، ہماری فوج کو، جو اب ٹخنوں سے اونچی شلوار اور قمیض میں ملبوس ہو گی، ہندوستان پر حملہ کرنے کی تیاریاں کرنے کا حکم دیا جائے گا- جب طالبان کی جانب سے زید حامد جیسے افراد آپ کا جوش و جذبہ بڑھانے کیلئے موجود ہوں تو ہمارا مقصد دہلی کے شاہی قلعہ پر اسلامی پرچم لہرانا ہونا چاہئے- خدا ہی ہمارا حامی و ناصر ہو-

خواتین کو تو یقیناً گھر کی چار دیواری میں رہنے کا حکم ہو گا- ملک میں لاکھوں کروڑوں، یکدم اپنی نوکریوں سے محروم ہو جائیں گی- انہیں گھروں سے باہر نکلنے کیلئے لازم ہو گا کہ وہ مکمل برقع پہنے ہوں اور ان کے ساتھ محرم مرد موجود ہو- انہیں کسی مرد ڈاکٹر سے علاج کرانے کی اجازت نہیں ہو گی اور اگر ان کے جسم کا کوئی بھی حصہ عوامی مقام پر نظر بھی آ گیا تو ایک طالب فوری طور پر انہیں کوڑے مارے گا، بالکل اسی طرح جیسے انہوں نے افغانستان میں اپنے دور حکومت میں کیا-

انتہا پسندی اور دہشت گردی کو نظرانداز کرنے اور عسکریت پسندی کو برآمد کرنے کی پاداش میں پاکستان، اقوام عالم میں پہلے ہی ایک اچھوت بن چکا ہے- اب ذرا تصور تو کریں وہ کون کون سے دروازے ہوں گے جو اچھے مستقبل اور پیسے کیلئے بیرون ممالک کا رخ کرنے والے پاکستانی پاسپورٹ ہولڈرز کیلئے ہمیشہ کیلئے بند ہو جائیں گے- اور اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا، پاکستانی طالبان کے ہاتھوں میں ایٹمی اثاثوں میں جانے کی بھیانک صورتحال قبول کر لے گی تو ہمیں سوچنے کا عمل، دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت ہے-

ہمارے ٹی وی اسٹوڈیوز میں، امریکنوں کی جانب سے ہمارے ایٹمی اثاثوں کو نیوٹرل کرنے کی خواہش کے بارے میں تکرار، کئی برسوں سے جاری ہے- اگر طالبان ٹیک اور کر لیتے ہیں تو ایسا ہونا لازمی ہے- میں یہ تو نہیں سمجھتا کہ یہ سب بغیر کسی خون خرابے کے ہو جائے گا لیکن میں یہ بھی نہیں سمجھتا کہ دنیا اس کام میں بہت زیادہ سال صرف کرے گی-

اقلیتیں اپنا سازوسامان باندھ کر ان تمام ملکوں سے پناہ کیلئے درخواست کریں گی جو بھی انہیں قبول کرنے کو تیار ہوں- پہلے ہی غیر مسلموں کو (بلکہ غیر سنی کہنا زیادہ صحیح ہو گا)، دوسرے درجے کے شہریوں کی طرح ٹریٹ کیا جا رہا ہے-

طالبان نے کیلاش کے قبیلوں کو تو دھمکی بھی دے دی ہے کہ یا تو وہ مسلمان ہو جائیں یا پھر انہیں قتل کر دیا جائے گا- یہ صرف وقت کی بات ہے کہ گرجاؤں، مندروں اور دوسری عبادت گاہوں پر ہمیشہ کیلئے تالے پڑے ہوں گے-

میں کیا کروں گا؟ اپنی داڑھی بڑھا لوں گا اور ایسی شلواروں کیلئے آرڈر دے دوں گا جو طالبان کی طرح ٹخنوں سے اونچی ہوں-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: شعیب بن جمیل

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں