داخلی سلامتی پالیسی

26 فروری 2014
خطرات کے تعین اور نفاذ پر، وزیرِ داخلہ کی پنچ سالہ پالیسی بظاہر کمزور نظر آتی ہے۔ اے ایف پی فوٹو۔۔۔
خطرات کے تعین اور نفاذ پر، وزیرِ داخلہ کی پنچ سالہ پالیسی بظاہر کمزور نظر آتی ہے۔ اے ایف پی فوٹو۔۔۔

اس پر بات کی گئی، اس کے بارے میں سنا گیا اور کئی ماہ تک زیرِ بحث بھی رہی اورکافی عرصے سے جس کا انتظار تھا، بالآخر اب، وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کی قومی داخلی سیکیورٹی پالیسی ۔ سن دو ہزار تیرہ تا اٹھارہ، پہلی بار عوامی ملاحظے کے لیے منظرِ عام پر آسکتی ہے۔

جیسا کہ اتوار کو 'ڈان' کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس وقت ملک کو جس نوعیت کی دہشتگردی اور عسکریت پسندی کاسامنا ہے، اس کی جڑوں کے بارے میں پالیسی کا تجزیہ تاریخی تناظر میں درست ہے لیکن خطرے کے واضح تعین اور کس طرح اس کا موثرنفاذ ہوگا، ان دونوں کے معاملے میں بظاہر یہ پالیسی کمزور نظر آتی ہے۔

اگرچہ اب تک سرکاری سطح پر پالیسی کا سامنے آنا باقی ہے، اس لیے، بحث اور مین میخ نکالنے سے زیادہ متعلقہ پہلو یہ ہوسکتا ہے کہ اس بات پر زیادہ توجہ دی جائے کہ اس وقت عسکریت پسندی کے جس مسئلے کا سامنا ہے، حکومت نے اس کے اصل ماخذ کی تشخیص کس طرح کی ہے۔

خاص طور پر، طویل فوجیِ دورِ حکمرانی میں افغانستان، ہندوستان اور کشمیر کے حوالے سے پالیسیوں کے نقائص، کمزور گورنس اور اداروں کے زوال سمیت، گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران کی جانے والی غلطیوں کے سبب، آج پاکستان میں جو صورتِ حال تخلیق ہوچکی، اُس کا ہونا لازم تھا: غیر یقینی، اُلجھن، ڈانوا ڈول۔

لہٰذا اس صورت میں، جب مسئلے کی تشخیص کی اجازت دی گئی تو اسے میڈیا کی نظروں سے کیوں دور رکھا گیا، اور ایک اچھے خاصے وقت میں، جب سیاستدان اس بنیادی تصور کو درست طور پر سمجھنے کے اہل ہیں تو دوسری جانب یہ اس کے نفاذ کی اہلیت کیوں کر نہیں رکھتے؟

اس وقت ملک جن مسائل میں خود کو گھرا پاتا ہے، اس کا جزوی الزام افغانستان، ہندوستان اور کشمیر پالیسی کے سر دھرسکتے ہیں لیکن اس کے بعد، یقینی طور پر ذمہ داری منتخب قیادت پر ہی آتی ہے کہ انہوں نے دیگر اداروں کے اختیار میں موجود پالیسیوں کا ہاتھ روک کر، خود اپنے وژن کو نافذ کرنے کی کوششیں کیوں نہیں کیں۔

اگرچہ کسی نہ کسی طرح، حکومتیں اپنے درست خیالات کی منتقلی اور ان کے عملی نفاذ کو دیکھنے کے قابل نہیں رہی ہیں لیکن اس سوال کے ایک حصے کا جواب یقیناً وقت ہے:

یہ خیال ہے کہ جمہوری سفر اور اس سے جنم لینے والی تبدیلیوں کے مدِ نظر، ریاست اور معاشرے، دونوں کے واسطے بنیادی پالیسیوں کی درآمد پر قیادت کے حق اور فرض کی ادائیگی کے لیے، سیاستدانوں کو سول سوسائٹی کی حمایت سے طویل مسافت طےکرنا ہوگی لیکن صرف وقت اور گنجائش مسئلے کا حل فراہم نہیں کریں گے۔

اس کے واسطے سیاسی قائدین کو، اپنے خیالات کو عوامی پالیسیوں میں تبدیل کرنے پر آمادگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ جس کے بعد، انہیں تشخٰص کیے گئے امراض کو دور کرنے کی خاطر عملی کارروائی کرنا ہوگی۔ اس کے لیے ٹھوس عزم اور بڑے اقدامات، نیز صبروتحمل ضروری ہے۔

اس سادہ سی حقیقت سے چھٹکارا ممکن نہیں کہ اس وقت ملک جس حالت میں ہے، وہ اہم اداروں کو دی گئی چھوٹ کا نتیجہ ہے۔

روز مرہ کی ذمہ داریوں، جیسا کہ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کا فرض نبھانے میں ریاستی صلاحیتوں کے فقدان کے سبب ہی، عسکریت پسندی اور دہشت گردی کو دور دور تک پھیلنے کی اجازت ملی ہے۔

اگر حکومت، واقعی قومی سطح پر درپیش حالات بدلنے کی خاطر پالیسی چاہتی ہے تو پھر یہ خود حکومت ہی ہے، جسے آگے بڑھ کر قیادت کرنا ہوگی۔

انگریزی میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں