بریلوی جماعتوں کا طالبان کے خلاف اتحاد

27 فروری 2014
بریلوی مسلک کی تنظیموں نے حکومت  سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کو ریاست کے دشمن اور غدار قرار دے۔
بریلوی مسلک کی تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کو ریاست کے دشمن اور غدار قرار دے۔

لاہور: بریلوی مسلک کی پچاس سے زیادہ تنظیموں اور گروپس نے طالبان کے خلاف اتحاد تشکیل دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ انتہاپسندوں اور ان کی حمایت کرنے والی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو ریاست کے دشمن اور غدار قرار دے۔

یہ مطالبہ گزشتہ روز بدھ کو لاہور میں تحفظِ ناموس رسالت محاذ کے زیراہتمام کئی جماعتوں کی کانفرنس میں کیا گیا۔

اس موقع پر متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما عبدالحبیب، مجلس وحدت المسلمین کے رہنما ناصر عباس شیرازی اور پاکستان مسلم لیگ ق کے ایک وفد نے خصوصی دعوت پر اس کانفرنس میں شرکت کی۔

کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ طالبان کی سرپرستی اور حمایت کو ریاست کے خلاف ایک سنگین جرم قرار دیا جانا چاہئیے، پھر جو لوگ اس جرم کے مرتکب ہوں ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے اور ملک سے انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے سخت سزائیں دی جائیں۔

طالبان کے ساتھ مذاکرات کی مخالف کرتے ہوئے کہا گیا کہ انہوں نے مذاکراتی عمل کو ختم کرنے کی کوشش کی اور یہ پالیسی بُری طرح ناکام ہوئی ہے اور صرف جنگ ہی امن قائم کرنے کا واحد راستہ ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ’’کالعدم تنظیم کے ساتھ مذاکرات غیر مشروط ہونے چاہئیں، فوج کو شدت پسندوں سے نمٹنے کے لیے ایک 'فری ہینڈ' دینا چاہئیے اور جب تک ان کا خاتمہ نہ ہوجائے آپریشن جاری رہنا چاہیے۔‘‘

مشترکہ اعلامیے میں زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ پوری قوم مسلح افواج کے پیچھے متحد ہوکر کھڑی ہے اور حکومت کو چاہئیے کہ وہ فیصلہ کن فوجی آپریشن کے ذریعے شدت پسندوں کا خاتمہ کرے۔

جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام پر براہ راست تنقید کرتے ہوئے انہیں طالبان کا سیاسی ونگ قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ دونوں مذہبی تنظیمیں صوبہ خیبر پختونخوا میں ان کا اثرورسوخ پیدا کررہی ہیں۔

کانفرنس میں ملک گیر 'گو طالبان گو' مہم شروع کرنے اور جمعہ 28 فروری کو طالبان مخالف دن منانے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

اعلامیے میں ایم کیو ایم، مجلس وحدت المسلمین، مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف کی جانب سے فوجی آپریشن کی حمایت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا گیا کہ قوم اور محبِ وطن جماعتیں طالبان کے خاتمے پر متفق ہیں۔

اعلامیے میں الزام عائد کیا گیا کہ ملک کے اندر شدت پسند سرگرمیاں افغانستان سے امریکی سرپرستی میں کی جارہی ہیں اور مطالبہ کیا کہ کابل تمام مطلوب شدت پسندوں کو اسلام آباد کے حوالے کرے اور انہیں پاکستان کے خلاف شدت پسند کارروائیاں کرنے سے روکے۔

کانفرنس کے درمیان جن ممتاز لوگوں نے شرکت کی ان میں سابق وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی، سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا، سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری، جامعہ نعیمیہ کے علامہ راغب حسین نعمیی، ٹی این آر ایم کے صدر رزاق المصطفیٰ نقشبندی، عالمی تنظیم اہلسنت کے سربراہ پیر افضل قادری، مفتی محمد خان قادری، جے یو پی سواد اعظم کے سربراہ پیر محفوظ مشہدی بھی شامل تھے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Syed Feb 28, 2014 05:05am
یہ اتحاد بھی بس جیسے دیوانے کا خواب ہی بن کر رہ گیا ہے۔ خبر اچھی ہے، اِس ہوالے سے گاہے بگاہے خبر آتی بھی رہتی ہے لیکن یہ بیل منڈھے کیسے چڑھے گی اور یہ چاند کب نکلے گا بس اب یہی دیکھنا رہ گیا ہے- انشااللہ، یہ اتحاد بہت جلد ہی ہوجائے تو اچھا ہے تاکہ اِن تمام دہشتگرد لشکروں، سپاہوں اور طالبانِ خون کا قلع قمع کرنا ممکن ہو سکے۔ اور ساتھ ہی اتحادِ امت کے ذریعے اِن تکفیریوں کے تمام ہمدردوں، خیرخواہوں اور سیاسی ونگز کو مکمل نتھ ڈالی جا سکے چاہے اُن کا تعلق غیر منور کی جماعتِ اسلامی سے ہو، طالبان خان کی غیر منصفانہ تحریک سےہو یا بھلے ہی بابائے خوارج کی جمعیت علمائے سُو سے ہو ۔۔۔۔ طالبان کی سرپرستی اور حمایت کو ریاست کے خلاف ایک سنگین جرم قرار دیا جائے،اور پھر جو لوگ اس جرم کے مرتکب ہوں ان سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹا جائے۔ ملک سے انتہاپسندی، نام نہاد فرقہ واریت اور اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے سخت ترین سزا کا دیا جانا وقت کی اولیں ضرورت ہے۔