سول ۔ ملٹری تعاون

01 مارچ 2014
داخلی سلامتی پالیسی ایک طرف، سول۔ ملٹری اداروں میں اشتراکِ عمل خود بڑا چیلنج ہے۔اے پی پی فوٹو۔۔۔
داخلی سلامتی پالیسی ایک طرف، سول۔ ملٹری اداروں میں اشتراکِ عمل خود بڑا چیلنج ہے۔اے پی پی فوٹو۔۔۔

قومی داخلی سلامتی پالیسی کے مواد کو خفیہ رکھ کر حکومت اس پر کھلی بحث میں رکاوٹ بن سکتی ہے لیکن جو مسائل حل کرنا چاہتی ہے، وہ بمشکل ہی راز ہو۔ پالیسی کے نفاذ میں جو امکانی مسائل ہیں، ان کا سب کو علم ہے۔ طویل عرصے سے درپیش مشکلات اور مسائل سے قطع نظر، یہاں شاید جو سب سے بڑا چیلنج سامنے آئے گا، وہ ہے سول ۔ ملٹری تعلقات۔

کم از کم وزارتِ داخلہ اور حکومت اس معاملے کی اہمیت سے آگاہ ہیں: بدھ کو ایوان میں وزیرِ داخلہ نثار علی خان کے بیان سے نظر آتا ہے کہ بالترتیب مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں، نیز فوج اور سویلین انٹیلی جنس اداروں کے درمیان رابطے کی مشکلات سے نمٹنے کی خاطر وفاقی سطح پر دو ادارے، داخلی سلامتی اور انٹیلی جنس، قائم ہونے جارہے ہیں۔

پھر بھی، مسئلے کی تشخیص ایک بات اور اسے ٹھیک کرنے کا اہل ہونا دوسری بات ہے۔ اگر داخلی سلامتی اور انٹیلی جنس کے یہ ادارے اپنے مقصد میں کامیاب رہتے ہیں تو اس کا بڑا انحصار ان اداروں کے ادارتی ڈھانچے اور چلانے کے لیے نامزد اہلکاروں پر ہوگا لیکن یہاں ایک اور بڑا مسئلہ بھی ہے۔ سول اور ملٹری، دونوں اداروں کا اپنا اپنا کلچر۔

آغاز کرتے ہیں ملٹری سے۔ جمہوری منصوبے اور جمہوریت کی طرف پیشرفت پر تمام تر حمایت کے باوجود، اگر یہ مخاصمانہ نہیں، تب بھی ملٹری، سوییلن قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو شک بھری نگاہ سے دیکھتی ہے، یہ رویہ بدلنا بہت مشکل ہے۔

یہ بات شرپسندی پر مبنی قیاس آرائیوں پر مبنی نہیں، حال ہی میں ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کے افشا ہونے والے حصے کی صورت، سیاہ وسفید میں سامنے آچکی ہے۔ اگر ادارے کی تاریخ کو بھول بھی جائیں تب بھی اس رپورٹ میں سویلین قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بارے میں اُس وقت آئی ایس آئیکے سربراہ جنرل پاشا کا بیان چونکادینے والا تھا۔

اعلیٰ ملٹری قیادت بشمول ایم آئی اور آئی ایس آئی کی جانب سے خفیہ اطلاعات کے ضمن میں ہم پلہ سویلین اداروں کے ساتھ بامعنیٰ تعاون کی خاطر، رویوں میں بنیادی تبدیلیاں درکار ہوں گی۔ اگرچہ اس وقت ملٹری کا بھی یقین ہے کہ عسکریت پسندی اور دہشت گردی، پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں لیکن پھر بھی رویوں میں تبدیلیاں اتنی آسانی نہیں آتی ہیں۔

سکّے کا دوسرا رُخ سویلین سوچ اور اُن کا طریقہ کار ہے، یہاں بھی ایک بنیادی تبدیلی درکار ہوگی۔ اس کی وجہ وہ تاریخی تجربات ہیں کہ سویلین نے آئین کے تحت کیوں اختیارات نہیں سنبھالے یا پھر آئینی لحاظ سے اختیارات حوالے کرنے پر اصرار کیوں نہیں کیا۔

لیکن اس کے علاوہ اور بھی مسائل ہیں جن میں، سویلین کے ماتحت قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی اہلیت اور ان اداروں میں سیاسی مداخلت کا ہونا بھی ہے، یہی وہ کچھ ہے جس کا باجا اکثر فوج بجاتی ہے اور ٹھیک بجاتی ہے۔

جب تک یہ تبدیلیاں نہیں لائی جاتیں، تب تک سویلین اور ملٹری کے درمیان حقیقی رابطوں کا اعتراف نہیں ہوگا۔

انگریزی میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں