یوکرائن میں فوجی مداخلت کی قیمت ادا کرنی ہوگی: اوباما

اپ ڈیٹ 01 مارچ 2014
امریکی صدر اوباما نے جمعہ کی رات جاری کیے گئے ایک بیان میں روس کو یوکرائن میں کسی قسم کی فوجی مداخلت سے خبردار کیا ہے۔ —. فائل فوٹو رائٹرز
امریکی صدر اوباما نے جمعہ کی رات جاری کیے گئے ایک بیان میں روس کو یوکرائن میں کسی قسم کی فوجی مداخلت سے خبردار کیا ہے۔ —. فائل فوٹو رائٹرز

امریکی صدر باراک اوبامہ نے اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پیوٹن سے کہا ہے کہ یوکرین میں کسی بھی قسم کی فوجی مداخلت کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔یاد رہے کہ جمعہ کے روز کریمیا میں روسی فوجیں تعینات کردی گئی تھیں۔

عالمی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یوکرائن کی نئی حکومت کی کابینہ کا پہلا اجلاس ہفتے کے روز منعقد ہورہا ہے، اور اسی دوران امریکی انتباہ کے باوجود جیسے جیسے روس نواز فوجیں اپنی گرفت شورش زدہ کریمیا پر مضبوط کرتی جارہی ہیں، اس کے علیحدہ ہوجانے کے خدشات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔

صدر اوباما نے واشنگٹن میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’یوکرائن میں روسی فیڈریشن کی جانب سے فوجی نقل و حرکت کی رپورٹوں پر اب گہری تشویش ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ یوکرائن کی سالمیت اور علاقائی خودمختاری کی کسی بھی طرح کی خلاف ورزی سے شدید عدم استحکام پیدا ہوجائے گا۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ یوکرائن میں کسی بھی قسم کی فوجی مداخلت کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔

اوبامہ نے مزید کہا کہ ’’ابھی چند دن پہلے ہی دنیا بھر کے ملکوں سے لوگ اولمپکس گیمز میں شرکت کے لیے روس گئے تھے، اور اب روس نے دنیا بھر کی قوموں سے ملامت طلب کرلی ہے۔ بلاشبہ اس معاملے پر امریکا بین الاقوامی برادری کے ساتھ کھڑا ہوگا۔

صدر اوباما نے جمعہ کی رات گئے واشنگٹن میں ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے اجلاس میں اپنی شرکت کو ملتوی کرنے کے بعد وہائٹ ہاؤس سے غیرمعمولی اقدام کے طور پر یہ بیان جاری کیا۔

ان کا یہ بیان کیف میں یوکرائن کے حکام کی جانب سے کریمیا میں روسی فوجیوں کے داخلے کی اطلاعات کے بعد سامنے آیا۔ یوکرائن کے عبوری صدر اولیکسنڈر ترچائنو نے روسی صدر پیوٹن پر اشتعال انگیزی کا الزام عائد کیا اور زور دیا کہ وہ اپنی فوجوں کو واپس بلوائیں، جبکہ وزیرِ داخلہ ارسن افاکوو نےایئرپورٹ پر قبضے کو فوجی مداخلت اور قبضے کے مترادف قرار دیا۔

اپنے بیان میں اوباما نے کیف میں عبوری حکام کے تحمل کی تعریف کی۔

اے ایف پی کے مطابق ایک امریکی دفاعی اہلکار نے کہا کہ ماسکو کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ وہ پہلے ہی روسی زبان بولنے والے علاقے میں سینکڑوں فوجی بھیج چکا ہوگا، جہاں اس کا ایک اہم فوجی اڈا بھی ہے۔

واضح رہے کہ کریمیا میں حکومتی ڈھانچے کا کنٹرول حاصل کرنے والی مسلح افواج کی نوعیت کے بارے میں قابل اعتماد معلومات حاصل کرنے کے لیے پینٹاگون اور وہائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیردن بھر بھاگ دوڑ کرتے رہے تھے۔

اس سے قبل دوپہر تک یوکرائن میں روسی سرگرمیوں کے بارے میں امریکی انتظامیہ کا مؤقف غیر واضح تھا، اس کی جانب سے صرف اتنا ہی کہا گیا تھا کہ حکم اس کی تفتیش کررہے ہیں کہ روس کس حد تک جاسکتا ہے۔اور کریمیا میں روسی نواز فوج کی نوعیت کے بارے میں خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔

امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے بھی یہی کہا تھا کہ انہیں اس بات کا یقین دلایا گیا ہے کہ روس ، یوکرین کی خودمختاری کی خلاف ورزی نہیں کر رہا ہے۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ حالات مزید خراب نہ ہوں۔

اس سے پہلے یوکرائن کے عبوری صدر اولیکسنڈر ترچائنو نے روس پر كریميا میں فوج کی تعیناتی اور یوکرین میں فوجی مداخلت کا الزام لگایا تھا۔

ٹی وی پر نشر ہونے والے اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ روس چاہتا ہے کہ یوکرائن کی نئی عبوری حکومت اس کے اکسانے پر اپنا رد عمل ظاہر کرے تاکہ روس كریميا پر اپنا قبضہ جماسکے۔

ان کا یہ پیغام ان غیر مصدقہ اطلاعات کے بعد آیا تھا، جس میں کہا گیا ہے کہ روس کے طیارے اس علاقے کی طرف آئے ہیں، جس میں سینکڑوں کی تعداد میں فوجی سوار ہیں۔

ساتھ ہی یہ بھی خبریں ملی تھیں کہ روس نواز مسلح افراد نے اہم علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے ۔

اولیکسنڈر ترچائنو کا کہنا تھا ’’یہ لوگ ہمیں فوجی ردّعمل کے لیے اکسا رہے ہیں۔ ہماری خفیہ معلومات کے مطابق وہ ایسے حالات تشکیل دے رہے ہیں جس طرح انہوں نے ابخاذیہ میں کیا تھا۔ وہاں انہوں نے خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کی اور پھر اس علاقے پر قبضہ کرلیا۔ یوکرائن میں سیکورٹی فورسز اپنا کام کر رہی ہیں لیکن روس انہیں اکسانے کی کوشش کر رہا ہے، پھر بھی ہم اس کے جال میں نہیں پھنسیں گے۔‘‘

اقوام متحدہ میں یوکرائن کے سفیر یوری سرگيو نے سلامتی کونسل کو صورتحال سے آگاہ کرنے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ کونسل کو یوکرائن کے حالات پر سنجیدگی سے غور کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں